معروف قانون دان اور سابق گورنر سندھ فخر الدین جی ابراہیم کے بیٹے ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخر الدین جی ابراہیم کے استعفے کے بعد سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بظاہر صدر پاکستان کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنے خلاف ریفرنس دائر ہونے کی اطلاعات کی تصدیق کی درخواست کی ہے۔
28 مئی کی تاریخ والے صدر مملکت عارف علوی کے نام اس مکتوب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ حکومتی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا ہے لہذا اگر ایسا ہی ہے تو انہیں اس کی نقل فراہم کی جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں مزید لکھا کہ ’میرے خلاف ریفرنس فائل ہونے کی صورت میں، صرف مجھ سے جواب طلب کیے جانے کے بعد اور وہ بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی اجازت سے ہی حکومت ریفرنس اور اس پر میرا جواب سامنے لا سکتی ہے۔ اس کا اس طرح افشا ہونا کردارکشی کے مترادف ہے جس سے میرا قانون کے مطابق کارروائی کا حق مجروح ہوتا ہے۔‘
اس سے قبل ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ہائی کورٹس کے دو اور سپریم کورٹ کے ایک جج (جسٹس فائز عیسیٰ) کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز دائر کئے گئے ہیں جو قابل قبول نہیں۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ریفرنسز میں ججوں پر بیرون ملک جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے نام بذریعہ فیکس اور کوریئر بھجوائے گئے استعفے میں زاہد فخر الدین نے ججز کے خلاف ریفرنس کو ’حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کی کوشش قرار دیا ہے۔‘
انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا کہ ’سپریم کورٹ کے ججز کی ساکھ ناقابل مواخذہ ہے۔ سپریم کورٹ کے جس معزز سینئر جج کے بارے میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے، اس سے ان کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میری نظر میں یہ ججوں کے احتساب کی بات نہیں ہے بلکہ خود مختار افراد کی عزت کو تار تار کرنا اور پاکستانی عدلیہ کو دھونس دھمکی سے مرعوب کرنے کی ایک کوشش ہے۔‘
زاہد فخر الدین نے صدرِ پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’منگل کے روز میڈیا میں آنے والی خبروں سے معلوم ہوا کہ آپ نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے ہیں۔ آپ نے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کو اُن ججوں کی غیر ملکی جائیدادوں کے بارے میں انکوائری کرنے کی ہدایت کی، جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔ ان میں سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج شامل ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میڈیا کی خبریں دیکھنے کے بعد مجھے اعلیٰ حکومتی شخصیت نے بھی ریفرنس دائر کرنے کی تصدیق کی۔‘
زاہد فخر الدین نے لکھا: ’ان معزز ججوں کے خلاف حکومت نے گذشتہ ماہ ہی نظر ثانی کی اپیل دائر کرکے اپنا ذہن واضح کر رکھا ہے۔ میری نظر میں یہ ججوں کے احتساب کی بات نہیں ہے بلکہ خود مختار افراد کی عزت کو تار تار کرنا اور پاکستانی عدلیہ کو دھونس دھمکی سے مرعوب کرنے کی کوشش ہے۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر اس عمل کو روکا نہ گیا تو یہ اس ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا جو ہمارے بنیادی حقوق اور جمہوریت کا ذمہ دار ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر میں کام جاری نہیں رکھ سکتا، اس لیے بطور ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان اپنا استعفیٰ آپ کو بھجوا رہا ہوں۔‘
وکلا تنظیموں کی جانب سے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس مسترد
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل سید امجد حسین شاہ نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں ریاستی اداروں کو ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا لیکن عدالتی احکامات کی تعمیل کرنے کی بجائے حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔ جسٹس فائز عیسیٰ جیسے آزاد اور آئین و قانون کے مطابق فیصلہ دینے والے جج کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جسٹس فائزعیسیٰ کے خلاف بنائے گئے ریفرنس میں ان کی اہلیہ کے نام موجود جائیداد انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنا صدر پاکستان کا اختیار ہے، لیکن صرف ایسے ججز کے خلاف ہی ریفرنس کیوں بنتے ہیں جو نادیدہ قوتوں کے آلہ کارنہیں بنتے؟ جبکہ عدلیہ میں کئی ججز پر سنگین الزامات ہونے کے باوجود ان کے خلاف ریفرنس نہیں بنائے گئے۔‘
امجد حسین شاہ نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تیسری بار یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ پہلے پنجاب بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی سے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف غیر قانونی قرارداد پاس کروائی گئی اور اپریل میں ان کے خلاف فیض آباد دھرنا کیس کے معاملے پر اپیل دائر ہوئی لیکن ملک بھر کی وکلاء قیادت نے ان اقدامات کو مسترد کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس پر سماعت اِن کیمرہ ہوتی ہے اور اسے خفیہ رکھا جاتا ہے، اس لیے فی الوقت جائزہ لیا جارہا ہے اور عید کے بعد وکلاء کے نمائندہ اجلاس میں اس اقدام کے خلاف حکمت عملی طے کی جائے گی۔‘
دوسری جانب سابق صدر سپریم کورٹ بار علی احمد کرد نے انڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عدلیہ کو کسی ادارے کے دباؤ میں نہیں آنے دیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جسٹس فائز عیسیٰ ملک کے آنے والے دنوں میں سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس بنیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا راستہ روکنے کے لیے دو سال سے مسلسل کوششیں جاری ہیں کیونکہ انہوں نے کوئٹہ کے حالات سے متعلق بھی کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر میرٹ پر فیصلے دیئے اور اب بھی وہ قانون کے مطابق فرائض ادا کر رہے ہیں، لیکن انہیں زیرِ اثر کرنے کی کوشش جاری ہے۔‘
علی احمد کرد نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلوں کے خلاف چار اپیلیں زیر سماعت ہیں لیکن ان کا ایک بھی فیصلہ کالعدم قرار نہیں دیا جاسکا۔
ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ ’جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کسی غیر آئینی اقدام کی اجازت نہیں دیں گے۔ پہلے بھی عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کی اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔‘