سال 2008 میں کابل کے دورے پر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش افغانوں کو یقین دلانا چاہتے تھے کہ ’آپ امریکہ پر اعتماد کر سکتے ہیں، ہم سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے، سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ٹھہریں گے۔‘
اس سے سات سال قبل 2001 میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اعلان کیا: ’اس بار ہم چھوڑ کر نہیں جائیں گے‘ - جیسا کہ مغرب نے ماضی میں روسیوں کو بے دخل کرنے کے لیے مجاہدین کو استعمال کرنے کے بعد کیا تھا۔
لیکن اب افغانستان میں یہی ہو رہا ہے جب امریکی، برطانوی اور دیگر بین الاقوامی فوجی واپس لوٹ رہے ہیں۔ جو بائیڈن نے انخلا کے لیے نائن الیون کی علامتی آخری تاریخ دے دی ہے، لیکن بیشتر پہلے ہی جاچکے ہیں۔
تقریبا 750 فوجیوں پر مشتمل برطانیہ کے دستے کا بڑا حصہ بغیر کسی زبردست خیرباد یا الوداع کے روانہ ہو گیا ہے، جس میں کابل ایئرپورٹ میں دروازوں کے پیچھے پرچم اتارنے کی مختصر تقریب تھی۔ کئی برطانوی کمانڈر اپنے امریکی ہم منصبوں کی طرح انخلا کی رفتار سے ناخوش ہیں۔ ان کے افغان اتحادیوں کو خود سے دشمن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس بابت فیصلہ واشنگٹن میں کیا گیا ہے۔
سفارت خانے اور کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کے لیے لگ بھگ 650 امریکی فوجی پیچھے رہ جائیں گے۔ مغربی سپیشل فورسز کی تعیناتی پر بات چیت ہو رہی ہے - جیسا کہ برطانوی وزارت دفاع کی کچھ خفیہ دستاویزات میں دکھایا گیا ہے جو اس ہفتے کے اوائل میں کینٹ میں ایک بس سٹاپ پر ملی تھیں۔ لیکن طالبان کا موقف ہے کہ امریکیوں کے ساتھ دوحہ معاہدے میں یہ شرط شامل ہے کہ تمام مغربی افواج کو جانا ہوگا۔
کسی بھی صورت میں صرف سپیشل فورسز ممکنہ حالات کو بدل نہیں پائیں گی۔ طالبان پیش قدمی کر رہے ہیں اور اضلاع، فوجی اڈے اور سرحدی چوکیوں پر قبضے کر رہے ہیں۔ یہ سب یکطرفہ نہیں ہو رہا ہے - امریکی فضائی حملوں کی مدد سے سرکاری فوج نے کھوئے ہوئے کچھ علاقے واپس لیے ہیں۔ لیکن باغی آتے رہیں گے۔
اب ایک اور ’سقوط سایگان‘کی بھی بات ہو رہی ہے، اپریل 1975 کے اس اہم وقت کا ایک واقعہ جب جب فتح یاب ویت کانگ اور شمالی ویتنامی فوج شہر میں داخل ہوئی تو امریکی باشندے سفارت خانے کی چھت سے ہیلی کاپٹروں پر سوار ہونے کے لیے ہچکولے کھا رہے تھے۔ امریکی فوجی تاریخ کی سب سے بڑی شکست۔
افغانستان میں ایسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ 2003 میں ملا محمد عمر کی طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک کے اہم عناصر کے پاکستان فرار ہونے کے بعد استحکام لانے اور تعمیر نو شروع کرنے کا ایک بہت اچھا موقع ملا تھا۔
اس کی بجائے، جارج ڈبلیو بش اور ٹونی بلیئر نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ رکھنے والے صدام حسین کے جھوٹے بہانے پر عراق پر حملہ کیا۔ افغانستان کو محفوظ بنانے کے لیے درکار اہم وسائل عراق مشن منتقل کر دیئے گئے۔ طالبان پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس سروس کی مبینہ مدد سے سکیورٹی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واپس چلے گئے۔
امریکی اور برطانوی اس وقت بظاہر انکار کی حالت میں نظر آئے تھے۔ مجھے اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ کی یاد آتی ہے - جو گذشتہ ہفتے بدھ کو انتقال کرگئے۔ انہوں نے 2004 میں شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں ہم صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان پسپا ہیں، وہ مؤثر طریقے سے ختم ہو چکے ہیں، ان کے پاس افغانستان میں مستقبل میں کوئی کردار نہیں رہا ہے ۔ لیکن وہ پہلے ہی واپس آ چکے تھے جب خودکش حملوں کا پہلا واقعہ ہوا تھا۔
اب بہت سارے افغان جو اپنے خاندانوں کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہوسکتے ہیں، اسلام پسندوں کے اقتدار سنبھالنے اور وہ ایک بار پھر - ان کے ظالمانہ، ناقابل برداشت مذہبی حکمرانی کے برانڈ مسلط ہونے سے خوفزدہ ہیں۔ یہ 2001 میں اس امید افزا دور کا افسوس ناک الٹ ہے جب ملا محمد عمر کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغان اپنے ملک کی تعمیر نو کے لیے بیرون ملک سے واپس آئے تھے۔
لیکن کیا واقعی طالبان پھر سے ملک کا دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیں گے، اور اگر ایسا ہے تو، اس میں کتنا وقت لگے گا؟ واشنگٹن اور لندن میں ایک نئی سوچ کے مطابق محمد نجیب اللہ - افغان صدر جنہیں روسیوں نے پیچھے چھوڑ دیا تھا - وہ کریملن کی محض کٹھ پتلی نہیں تھے، جیسا کہ مغرب نے پہلے ان کے بارے میں کہا تھا بلکہ ایک حیرت انگیز رہنما تھے جو سوویت یونین کے خاتمے کے نتیجے میں معاشی امداد کے بند ہونے تک شورش سے کچھ عرصے تک موثر طریقے سے نمٹے تھے۔
روسیوں اور افغان حکومت سے لڑنے والے مجاہدین کو امریکہ، برطانیہ، دیگر یورپی ریاستوں، سعودی عرب، چین اور ایران کی حمایت حاصل تھی۔ سٹنگر میزائلوں سمیت ہتھیاروں اور لاکھوں ڈالر پاکستانی فوج کے ذریعہ ان کو بھیجے گئے۔ اسامہ بن لادن سمیت افغانستان جانے والے غیرملکی اسلام پسند جنگجوؤں نے اس کے نتیجے میں القاعدہ اور دولت اسلامیہ کو فروغ دیا اور شدت پسندی کو یورپ اور امریکہ واپس لائے۔
باغیوں نے کابل پر قبضہ کرلیا۔ نجیب اللہ جنہیں اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کی لاش کو کابل کی گلیوں میں ٹرک کے پیچھے گھسیٹا گیا اور پھر انہیں صدارتی محل کے قریب کھمبے سے لٹکا دیا گیا۔
اس بیانیے کے مطابق یہ حشر صدر اشرف غنی کی حکومت کا نہیں ہو گا، جسے بین الاقوامی فنڈز موصول ہوتے رہیں گے، اور اس طرح ان کے بچنے کا ایک بہت بہتر موقع ہے۔
اس عرصے کے دوران جب سن 2014 میں بین الاقوامی سکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) نے انخلا شروع کیا تو افغان سکیورٹی فورسز کی طاقت کو بڑھانے کی جلدی میں تربیتی کورس کو مختصر کر دیا گیا تھا، اور بعض اوقات انہیں مکمل طور پر تیار ہونے سے پہلے ہی جنگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ افغان فوج اور پولیس کو پہنچنے والے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔
فوج میں بدعنوانی اور نااہلی کے بارے میں جائز شکایات موصول ہوئی ہیں، ساتھ ہی ساتھ ان کی صفوں میں خطرناک طالبان کے شامل ہونے کے معاملات بھی ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر انہوں نے اپنے ملک کا خوب دفاع کیا ہے۔ میں کئی سالوں سے متعدد بار افغان فورسز کے ساتھ فوجی کارروائیوں میں ساتھ رہا ہوں، اور ان کی بہادری اور قربانی کو قریب سے دیکھا ہے۔
امریکیوں کی فضائی مدد اور اگر پاکستان کی جانب سے طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسے دیگر گروہوں کے لیے مادی امداد کو روکے رکھا گیا تو، افغان فورسز کامیابی کے ساتھ لڑ سکتی ہیں۔ تاہم، اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت ملک کے جنوب کی طرف سے کنٹرول کھونے کے بعد تیزی سے تقسیم ہو جائے۔
افغانستان سے سوویت انخلا کا عمل مجاہدین گروپوں اور کمانڈروں، خاص طور پر احمد شاہ مسعود – ’شیرِ پنجشیر‘ کے ساتھ رابطے کے ساتھ ہوا، جس نے طالبان کا ایک ناقابل معافی دشمن بننا تھا اور بعد میں اسے القاعدہ کے ہاتھوں نیویارک میں نائن الیون کے حملوں سے قبل قتل کر دیا گیا تھا۔
باغیوں کے ساتھ صلح کی کوششیں ملی جلی تھیں۔ سوویت دستاویزات نے بتایا کہ اس وقت افغان فوجیوں اور ان کے روسی مشیروں کو قائل کیا جاتا تھا کہ وہ اسلامی جنگجوؤں کو ’قاتلوں کے گروہوں، سامراج کے قاتل، بچوں کے قاتل اور ’کھوپڑیاں توڑنے والے‘ جیسے نام نہ دیں۔
توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ 1989 میں سوویت انخلا کے دوسرے اور آخری مرحلے کے بعد بھی افواج کے خلاف زیادہ دیر تک جنگ جاری رہے گی۔ لیکن انہوں نے اسی سال عام طور پر اپنے آپ کو اچھی طرح محفوظ رکھا اور ملک کے مشرق میں بھی دشمن کو بھاری شکست دی۔
باغیوں نے پاکستان انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) کے حمید گل کے ایک منصوبے کے تحت جلال آباد میں فتح کے بعد کابل پر حملے کرنا تھی۔ لیکن افغان فورسز نے نہ صرف اس حملے کا مقابلہ کیا بلکہ اس نے طالبان کو پسپا کر دیا۔
میخائل گورباچوف کی روسی حکومت نے نجیب اللہ حکومت پر حزب اختلاف کے ساتھ اقتدار میں شراکت کے معاہدے کی کوشش کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جس کی ایران اور چین جو مجاہدین کی سپورٹ کرتے تھے بھی حمایت کی۔ لیکن جارج ڈبلیو بش فوجی فتح چاہتے تھے اور برطانیہ نے جو باغیوں کا ایک اور سرگرم حامی تھا امریکی کی تابعداری کے ساتھ پیروی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگلے تین سال تک افغان فورسز نے اپنے مورچے مضبوطی سے سنبھالے رکھے اور مجاہدین کے خلاف کامیاب کارروائیاں کرتے رہے۔ ستم ظریفی یہ کہ انہوں نے مجاہدین کے درمیان سیاسی اور فوجی کمزوریوں کو بےنقاب کیا اور وہ اتنے موثر روسیوں کے تحت بھی نہیں تھے۔
1992 میں باغیوں نے پہلی بار ایک بڑے شہر خوست پر قبضہ کیا۔ یہ ایک پروپیگینڈا کے ساتھ ہی فوجی جیت بھی تھی کیونکہ افغانستان کے کمیونسٹوں کی حمایت کی وجہ سے خوست ’چھوٹا روس‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ لیکن پھر وہ وہاں سے آگے بڑھنے میں ناکام رہے اور تعطل پیدا ہوگیا۔
یہ اسی سال ماسکو میں ہونے والے واقعات تھے جن کا براہ راست افغانستان میں پیش آنے والے واقعات پر اثر پڑا۔ اس بحران سے ابھرنے والی بورس یلسن کی حکومت نے مبینہ طور پر افغانستان کو تیل بیچنے سے انکار کر دیا تھا، کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی کمیونسٹ حکومت کی حمایت کرتی ہوئی دکھائی دے۔ افغانستان کے بجٹ میں روسی سبسڈیوں میں پہلے ہی کمی کر دی گئی تھی۔
اگلے ہی سال ازبک جنگجو جنرل عبدالرشید دوستم نے اپنی ملیشیا کے ساتھ اپنا رخ بدلا، کابل حکومت کے اراکین باغیوں کے ساتھ چپکے سے بات چیت کر رہے تھے اور متعدد کمانڈروں نے حمایت تبدیل کر دی۔
مجاہدین نے اپریل 1992 میں کابل پر قبضہ کیا، نجیب اللہ ہلاک ہوئے۔ ایک نئی گورننگ کونسل تشکیل دی گئی، لیکن جلد ہی یہ ٹوٹ گئی۔ ایک وحشی خانہ جنگی کے نتیجے میں 400،000 افغان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ بالآخر طالبان کے اقتدار میں آنے پر منتج ہوا۔
اب، بڑھتی تاریکی میں، افغانستان کو ایک غیر یقینی اور خطرناک مستقبل کا سامنا ہے۔ رخصت ہونے والے امریکی کمانڈر، جنرل سکاٹ ملر نے متنبہ کیا ہے کہ ملک کو ’بہت مشکل وقت‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے... خانہ جنگی یقینی طور پر ایک ایسا راستہ ہے جس کا تصور اسی طرح جاری رہتا ہے، اور یہ دنیا کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔‘ انہوں نے افغان قیادت پر زور دیا کہ وہ متحد ہو جائے۔
لیکن حکومت اور مسلح افواج کو صرف اتحاد ہی کی ضرورت نہیں بلکہ ممکنہ کشیدگی کا سامنا کرنے کے لیے بین الاقوامی حمایت کی ضرورت ہے۔ اور مغرب کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے، اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ ایک بار پھر افغانستان سے چلے نہیں جائیں گے۔
© The Independent