ہندو بالادستی کی خواہاں نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر کی خودمختاری ختم کر کے بھارتی آئین سے بغاوت کی ہے۔ جموں اور کشمیر کو ’ان کی اوقات ‘ بتا دی گئی ہے۔ نہ صرف ان کی محدود خود مختاری کا خاتمہ کیا گیا ہے بلکہ انہیں انڈین یونین کا حصہ بنا کر وفاق کے زیر انتظام علاقے میں بدل دیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے 35 ہزار فوجیوں کوخفیہ طور پر اڑا کر کشمیر پہنچایا گیا جو کہ پہلے ہی دنیا کا سب سے زیادہ ملٹرائزڈ علاقہ ہے۔ حکومت کے اعلان کے بعد مزید 8 ہزار فوجیوں کو وادی کشمیر تعینات کیا جا چکا ہے۔ جموں اور کشمیر کے لوگوں کو فون اور انٹر نیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ تمام پارلیمانی جماعتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور تاجر رہنماوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ تین دن سے کشمیر کے اخبارات شائع نہیں ہو پا رہے۔ مودی کا یہ جبر پورے بھارت کا مقدر بن سکتا ہے۔
بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی جس نے راشٹریہ سیوک سنگھ سے جنم لیا ہے، اس کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ آرٹیکل 370 کا استعمال کشمیر کو بھارت کے ساتھ جوڑ ے رکھنے کا ایک غلط طریقہ ہے۔ وہ اسے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی فاش غلطی قرار دیتے ہیں۔ یہ دعوے آسانی سے غلط ثابت کیے جا سکتے ہیں۔
اگست 1947 میں شاہی ریاستیں آزاد رہنےیا بھارت اور پاکستان میں سے کسی بھی آزاد مملکت کا حصہ بننے کا فیصلہ کر سکتی تھی۔ ابتدائی طور پر جموں و کشمیر کے ہندو راجہ نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جب اکتوبر 1947 جموں و کشمیر کو پاکستانی فوج اور قبائلی لشکر کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا تو ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا۔ اس قانونی معاہدے نے بھارتی پارلیمنٹ کو محدود اختیارات دیے کہ وہ دفاع، خارجہ اور مواصلات کے معاملات میں جموں و کشمیر کے لیے قانون سازی کر سکتی تھی۔ اس معاہدے میں واضح انداز میں کہا گیا کہ یہ کشمیر کو بھارتی آئین کے ماتحت نہیں لاتا۔ وہ طاقت جس نے کشمیر کو بھارتی آئین سے جوڑ رکھا تھا وہ آرٹیکل 370 تھی۔ جس نے ریاست کشمیر کے ساتھ محدود خودمختاری کا وعدہ کیا تھا۔ 2016 تک بھارتی سپریم کورٹ کی یہ رائے تھی کہ آرٹیکل 370 ہمیشہ کے لیے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج وہ قوت جس نے جموں کشمیر کو بھارتی آئین سے جوڑ رکھا تھا ختم ہو چکی ہے۔ اور ایسا کسی جمہوری انداز کے بغیر کیا گیا ہے جس میں جموں کشمیر کے منتخب نمائندوں کی مرضی شامل نہیں ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کافی عرصے سے کہتے آئے ہیں کہ آرٹیکل 370 کشمیر کو ’خصوصی حیثیت‘ دیتا ہے جو وہاں کے لوگوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا آئین جو وفاق پر یقین رکھتا ہے اس کے تحت کئی اور ریاستوں کو بھی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ جموں کشمیر کے معاملے میں یہ آرٹیکل 370 تھا۔ آئینی ماہر اے جی نورانی کے الفاظ میں یہ کھلا سیاسی دھوکہ اور آئینی ظلم اسے مٹی میں ملا چکا ہے۔
نورانی کا کہنا ہے کہ : ’وہ لوگ جو آرٹیکل 370 پر نکتہ چینی کرتے ہیں کہ یہ کشمیر کو خصوصی آئینی یا سیاسی حیثیت دیتا ہے۔ کیا کوئی اور ریاست بھی اس قدر جبر اور بے اعتناعی کا شکار ہوئی ہے؟‘
کشمیریوں کے لیے 1953 کے بعد کی دہائیاں مسلسل دھوکے بازی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے عبارت ہیں۔ جمہوریت، ’خودمختاری‘ اور ’خصوصی حیثیت‘ کا وہ کمزور جھنڈا جو بھارت ہر عالمی فورم پر بلند کرتا رہا ہے تکبرانہ انداز میں توڑ دیا گیا ہے۔ سب کچھ بے نقاب ہو چکا ہے۔ کشمیریوں کی مرضی کو محکوم بنانے کا مقصد کھل کر سامنے آچکا ہے۔ نافرمان اور بگڑے ہوئے کشمیریوں پر ’فتح‘ کا جشن منانے والوں کو اس بارے میں ٹھہر کر سوچنا چاہیے۔ یہ بھارت کے سیکولر، جمہوری اور وفاقی آئین کو بدل کر اسے صرف ہندو قوم بنانے جیسا ہے۔ جس میں اقلیتوں کے ساتھ اسرائیل کے جیسا سلوک کیا جائے گا۔ مطلق العنانیت کا یہ مظاہرہ جو اس وقت کشمیر میں کیا جارہا ہے جلد ہی پورا بھارت اس کو محسوس کرے گا۔
کویتا کرشنن بھارتی کمیونسٹ پارٹی کی سیکرٹری جنرل ہیں۔
© The Independent