’میرے سکول کی آٹھویں جماعت کی بچی میں اعتماد ہے۔ سوال کر لیتی ہے۔‘ یہ کہتے ہوئے مختاراں مائی کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے۔ منزل کی طرف کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے کی چمک۔ اس لیے کہ جب وہ خود اتنی عمر کی تھیں تب ان کے علاقے میں لڑکیوں کی طرف سے سوال اٹھائے جانے کا تصور تک نہیں تھا۔
مختاراں مائی کہتی ہیں: ’بھائی مجھے مارتا تھا تو مجھ میں ہمت نہیں ہوتی تھی کہ ماں کو بتا دوں۔ آج کی بچیوں میں شعور ہے۔ وہ اپنے حق کے لیے لڑ سکتی ہیں۔‘
مرد کی بالادستی کا یہی ماحول تھا جس میں مقامی جرگے نے 2002 میں فیصلہ دیا تھا کہ بھائی کے ایک متنازع معاملے میں مخالف برداری کی غیرت کو ٹھیس پہنچی چنانچہ بدلے میں مختار اں مائی گینگ ریپ کی ’حقدار‘ ٹھہری۔
یہ فیصلہ میڈیا میں آیا تو دنیا نے جنوبی پنجاب کی تحصیل جتوئی کے پسماندہ قصبے میروالہ کو جانا۔ باہر کی دنیا نے وہاں کی مختاراں مائی کی آواز بن کر ان کا مقدمہ لڑنا شروع کیا۔
ساتھ ہی وہ کام شروع ہوا جو میروالہ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ جس مقام پر گینگ ریپ کا فیصلہ ہوا تھا وہاں سے چند سو میٹر کے فاصلے پر جوان مختار اں مائی اور چار بچیوں نے سکول لگا لیا۔
انہوں نے بتایا: ’ایک کمرہ تھا جہاں میں رہتی تھی۔ اسی میں سکول تھا اور شیلٹر ہوم بھی۔ اس میں بچیاں پڑھتی تھیں۔ ایک شیشم کا درخت تھا۔ اس کے نیچے بیٹھ کر بھی پڑھتے تھے۔ ہم گھر گھر جا کر کہتے تھے کہ بچوں کو پڑھنے کے لیے ہمارے پاس بھیجو۔ لوگ دروازے بند کر لیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کون سا نیا تماشا کرنا چاہ رہی ہیں۔‘
سترہ سال آگے آئیں تو آج کل اسی مقام پر 32 کمروں پر مشتمل مختار اں مائی گرلز ماڈل سکول میں 600 سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ بیشتر لڑکیاں ہیں لیکن اگر لڑکے آ جائیں تو انہیں بھی داخلے سے نہیں روکا جاتا۔
ابتدا میں سکول کی توسیع کے لیے زمین مختاراں مائی نے دی۔ دو کمرے پاکستانی حکومت نے بنا کر دیے۔ پھر قومی اور بین الاقومی غیر سرکاری اداروں سے ملنے والے عطیات سے درس و تدریس کا سلسلہ بندھ گیا۔ طلبہ کی تعداد بڑھتی گئی اور نئے کمرے بنتے رہے۔ اس سکول کی وجہ سے حکومت کو قصبے میں بچیوں کا سکول بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
ساتھ ہی مختاراں مائی وومن ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد پڑ گئی۔ سکول کے قریب الگ عمارت میں دفاتر بنے۔ ایک ہیلپ لائن قائم کی گئی۔ موبائل یونٹ تشکیل دیا گیا۔ خواتین کے حقوق کے قوانین میں ماہر عملہ رکھا گیا۔ میروالہ سے لے کر اسلام آباد اور یورپ سے لے کر امریکہ تک قائم غیر سرکاری اداروں کے منظم نیٹ ورک نے خواتین کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے مشن کو سالوں تک چلایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گھر بدر ہو جانے والی خواتین کو میروالہ میں مختاراں مائی کے شیلٹر ہوم میں پناہ ملتی تھی۔ نہ صرف کھانا، جوتے اور کپڑے ملتے تھے بلکہ اپنے دم پر زندگی آگے بڑھانے کے لیے سلائی کڑھائی اور میک اپ جیسے ہنر سکھائے جاتے تھے۔
دو سال قبل پاکستانی حکومت نے ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔ امریکہ اور یورپ میں بھی غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کی مالی معاونت کم ہونے لگی جو ترقی پذیر ملکوں میں تعلیمی و سماجی سرگرمیوں کے اداروں کو پروان چڑھاتے تھے۔ مختار اں مائی کا سکول اور شیلٹر ہوم بلواسطہ یا بلا واسطہ غیر سرکاری تنظیموں کی فنڈنگ سے چلتے تھے چنانچہ وہ بھی متاثر ہونے لگے۔
سکول کی طرف سے بچوں کو مفت یونیفارم ملنا بند ہو گیا۔ نئی کلاس میں طلبہ کے لیے نئی رنگین کتابوں کی جگہ فوٹو کاپیوں نے لینا شروع کر دی۔
2019 چڑھنے پر نوبت یہاں تک آ گئی کہ استانیوں کی تنخواہوں کے لیے پیسے بچنا ختم ہو گئے۔ گرمیوں کی تعطیلات ہونے تک آئی ٹی اور قرآن پڑھانے والی استانیاں چھوڑ گئیں۔ میروالہ سے میلوں دور تک کسی سکول میں ایسے کمپیوٹر موجود نہیں جیسے مختاراں مائی گرلز ماڈل سکول کے آئی ٹی کے کلاس روم میں ہیں۔ امکان ہے کہ اس کلاس روم کو آئندہ ہفتے تالہ لگا رہے گا جب بچے گرمیوں کی تعطیلات سے لوٹیں گے۔
شیلٹر ہوم کو تالہ لگے ہوئے عرصہ بیت چکا ہے۔ وہاں پڑی ہوئی سلائی مشینوں، بیوٹی پارلر بنانے کے تربیتی سامان اور فرنیچر پر دھول پڑی رہتی ہے۔ شیلٹر ہوم میں ہر وقت دس بارہ خواتین کا بسیرا ہوتا تھا جنہیں کم عمری کی شادی سے بچا کر لایا جاتا تھا یا جو تشدد کر کے گھروں سے نکال دی جاتی تھیں۔ تین وسیع کمروں پر مشتمل شیلٹر ہوم میں خواتین کے حقوق کے پوسٹرز پر جالے لگ رہے ہیں۔ بستروں پر بچھی چادریں پھٹی اور میلی ہیں۔ کسی کونے میں گڑیا پڑی ہے تو کسی دیوار سے کپڑے کا بھالو لٹکا ہوا ہے۔
ادھر سکول کے بچوں کے لیے کھیل کود اور غیر نصابی سرگرمیوں پر اخراجات ختم کر دیے گئے ہیں۔ گھروں سے سکول تک لانے لے جانے کی دو بسوں کو چلائے رکھنا ناگزیر ہے کیونکہ انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ بچیوں کے والدین پیدل نہیں بھیجیں گے۔ نہ سب کے وسائل ہیں کہ سواری پر خرچ کر سکیں یا خاندان کا کوئی شخص لانے لے جانے کے لیے وقف کر دیا جائے۔ بسوں کے ڈیزل کی مد میں مقامی پٹرول پمپ پر قابلِ ادائیگی قرض لاکھوں میں پہنچ چکا ہے۔ ڈررائیوروں اور چوکیداروں کو تنخواہوں کی ادائیگی کی صورتحال بھی استانیوں سے مختلف نہیں۔
تنخواہیں، مختار اں مائی کی سب سے بڑی پریشانی ہے۔
ان کا کہنا تھا:’انہوں نے گھر چلانے ہیں۔ ان کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ جب وہ ذمہ داریاں پوری نہیں ہوں گی تو ان کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ آ کر سکول میں پڑھائیں؟ ٹیچرز نہیں ہوں گی تو سکول نہیں چلے گا۔ سب سے پہلے تنخواہیں اور کتابیں۔ پِک اینڈ ڈراپ اور یونیفارم وغیرہ دینے کے مسائل بعد میں آتے ہیں۔‘
مختاراں مائی کے بقول انہوں نے کئی مرتبہ سابقہ اور موجودہ صوبائی حکومتوں کو معاونت کی درخواستیں دیں لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
’دو کمرے حکومت نے بنائے۔ اس کے بعد مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ ان کے پیسے بھی لگے ہوئے ہیں۔ ان کی بھی تو ذمہ داری ہے۔ صرف دو کمرے نہیں، میں 32 کے 32 کمرے دینے کو تیار ہوں۔ مجھ سے لے لیں لیکن چلائیں۔‘
سکول کے بچے مختاراں مائی کو ’باجی‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ایک بچی کا واقعہ سناتی ہیں جو چوتھی جماعت میں تھی۔ ایک دن وہ مختار اں مائی کے پاس آئی اور کہا کہ ’میرے والد نے میرا رشتہ طے کر دیا ہے۔ آپ کچھ کریں کیونکہ آپ تو کہتی ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘ مختار اں مائی اس کے والد کے پاس گئیں اور کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کرنے والے قوانین اور سزاؤں کی دستاویزات دکھائے۔ بچی کا رشتہ ختم کر دیا گیا۔ اس بچی نے بی اے کیا۔ پھر مختار اں مائی کے سکول میں آ کر کچھ عرصہ پڑھایا اور پھر شادی کر کے اپنا گھر بسایا۔
مختاراں مائی کہتی ہیں: ’جب بچیوں سے پوچھتی ہوں کہ بڑی ہو کر کیا بنیں گی تو جواب ملتے ہیں کہ آرمی میں جانا ہے۔ پائلٹ بنیں گی۔ جب وہ بچی تھیں تو ایسے مستقبل کے خواب دیکھنا تو درکنار، بڑوں سے مخاطب ہونا اور سوال جواب کرنا ناممکنات میں سے تھے۔ ‘
میروالہ کی پراعتماد بچیاں مختاراں مائی کے مشن کا نتیجہ ہیں۔
انہوں نے بتایا:’میرا ایک درخت ہے۔ جوان ہوا ہے۔ اب پھل دینا شروع ہوا ہے۔ پھل کھانے کا وقت آیا ہے تو ہمارے پاس بنیادی سہولیات نہیں۔ ہم لوگ اسے چلا نہیں سکتے۔‘
مالی بحران کے باوجود مختاراں مائی کی کوشش ہے کہ سکول بند نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا: ’میں اسے چلتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔ حکومت کو کہہ رہی ہوں۔ اپیل بھی کر رہی ہوں۔ آئیں اس کو چلائیں۔ کوئی ایسا محسن جو چلانا چاہتا ہے۔ کوئی بھی آ کر لے لے۔ میں دینے کے لیے تیار ہوں۔‘
انہیں خوف ہے کہ مختاراں مائی گرلز ماڈل سکول بند ہو گیا تو میروالہ پسماندہ سوچ کی طرف لوٹنے لگے گا۔
مختاراں مائی نے کہا: ’یہ بند ہو جائے گا تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ میری 17 سال کی محنت چلی جائے گی۔ میں نے رات دن لگائے۔ یہاں کے لوگوں کو شعور آیا۔ لوگوں نے اب اعتماد کرنا شروع کیا ہے کہ تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ضروری ہے۔‘