پریوں کی کہانیوں کا دور ختم نہیں ہوا، ڈراما ’فیری ٹیل‘ سے ایک نئی داستان شروع ہوئی ہے جو ایک ایسی دنیا کی کہانی ہے جہاں دوستی اور محبت ہی محبت ہے۔ اس دنیا میں کوئی کسی کا برا نہیں چاہتا، کوئی کسی سے نفرت نہیں کرتا۔
یہ ایک جذباتی سی سنڈریلا کی کہانی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ دادی آغو جان کی ہی جوانی ہے۔
سنڈریلا کی عمر کی ہر لڑکی ایسے ہی خواب دیکھتی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے اس نسل کو کروڑ پتی بننے کا خواب دیا ہے، جسے تعبیر کرنے کے لیے وہ ہر پل سرگرداں ہیں اور بھلا کیوں نہ ہو ایسا، حکومتوں کی لڑائی سے بوجھ تو عام آدمی پہ ہی آیا ہے، لہٰذا یہاں بھی مکالمہ سیاسی معروف جملے بازی سے بچ نہیں سکا۔
یہاں بھی ’گھڑی چور‘، ’سازش ہوئی ہے‘، ’مداخلت کرتے ہیں‘ کا چرچہ ہے لیکن محنت کے بنا آئی دولت ہو یا حکومت، جیسے آتی ہے ویسے ہی چلی جاتی ہے۔
سنڈریلا کروڑ پتی تو بن گئی مگر یہ دولت جیسے آئی تھی، ویسے ہی چلی بھی گئی۔
سنڈریلا ایک چائے کا کیفے کھولنا چاہتی ہے جس کے چکر میں سب کچھ اڑا دیتی ہے۔ لیکن یہ تو کہا جانا چاہیے کہ ڈرامے نے ایک بزنس ویمن متعارف کروائی ہے، ایک خود مختار عورت کی جامع صورت گری کی ہے۔
سنڈریلا کو کسی امیر شہزادے کے خواب بھی نہیں آتے، وہ اپنی دھن میں مست ملنگ ہے۔
اصلی شہزادی وہی ہوتی ہے جو کسی امیر شہزادے کی تلاش میں نہ بیٹھی ہو بلکہ شہزادہ اس کا جوتا لیے اس کا پاؤں تلاش کر رہا ہو۔
محبت کرنے کی شے نہیں ہے، یہ ہو جاتی ہے اور جب ہو جاتی ہے تو انسان سے ایسی ایسی حماقتیں کرواتی ہے کہ اسے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ حماقت ہے۔ ایک بہت سنجیدہ لڑکا ’پریکٹیکل مین‘ سے محبت نما جذبے کا اسیر ہو کر کچھ میٹھی میٹھی حماقتیں کرنے لگتا ہے، جو حسین اور قابل یقین لگتی ہیں۔
گھر کا ماحول ہمدرد اور غیر سازشی ہے۔ پاشا صاحب کے دو بچے ہیں ایک امید یعنی سنڈریلا اور دوسرا سمیر، ان کی اہلیہ کے انتقال کے بعد چچی نے انہیں پالا۔ یوں ایک تیسرا کردار چچازاد حیا بھی ہے جو سنڈریلا کے لیے بالکل بہن جیسی ہے۔
جملہ سازی میں اردو محاروں کا بہت ظرافت سے اور عمدہ استعمال ہوا ہے جو اکثر اردو گھرانوں میں دکھائی دیتا ہے۔
پاشا صاحب اپنے بچوں کی اس بات سے ناراض رہتے ہیں کہ وہ پڑھائی لکھائی پہ توجہ دینے کی بجائے راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو پریکٹیکل اپروچ رکھتے ہوئے محنت سے آگے بڑھنا چاہیے۔ محنت پہ یقین رکھنا چاہیے۔
یہ سب ہے کراچی کی سنڈریلا کی کہانی میں جو آج کل گلی گلی میں چھائی ہوئی ہے۔
امیر بننے کی تمنا کسے نہیں ہوتی، لیکن محنت کیے بنا کسی شارٹ کٹ سے جلدی سے امیر بن جانا، یہ خواہش نوجوانوں کو ذہنی بیمار کر رہی ہے۔
سنڈریلا بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جو کروڑ پتی بننے کے چکر میں ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ جیسے ٹی وی شو سے متاثر ہو کر کسی طور اسلام آباد، اس ٹی وی شو میں چلی تو گئی اور دو کروڑ کا انعام بھی جیت لیا، مگر گھر میں سوائے اس کی چچی کے اس سے کوئی متاثر نہیں ہوا کہ وہ کروڑ پتی بن گئی ہے۔
خود وہ بھی بےیقین سی تھی کیونکہ اس شوق کی وجہ سے اس کے ابا اسے ناراض ہیں۔ گھر والے دور ہیں اور اسے بنا خاندان کے، دولت کو انجوائے بھی نہیں کرنا تھا۔
ڈرامے میں کراچی کی تہذیب نے حسن بھرا ہوا ہے۔ وہ جو کیا کہا ہے کسی شاعر نے ’اک تہذیب ہے مجھ کو مقصود‘ تو یہ ایک تہذیب یافتہ شہری گھرانے کی کہانی ہے جہاں زندگی گزارنے کے کچھ اصول اور قوانین ہیں اس لیے امید میں یہ تمیز تو ہے کہ اسے کروڑ پتی بننے کے لیے کچھ کرنا ہے، جو اس کے محنتی و عملی ہونے کا جواز دیتا ہے، لیکن 20 سال کی عمر میں اس کو آسان ترین حل یہ ٹی وی شو ہی دکھائی دے رہا تھا۔ محنت کر کے وہ وہاں تک پہنچ ہی گئی اور پیسے آنے کے بعد کاروبار کرنے کی کوشش کی۔
امید اس لیے ایک سپر ہیروئن ہے کیونکہ وہ اپنے قدموں پہ کھڑا ہونا چاہتی ہے، کسی ستون کا سہارا نہیں لینا چاہتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی کے نام سے ہی بھاگ جاتی ہے حالانکہ عام لڑکی شادی کے نام سے خوش ہوتی ہے۔
اس میں ایک بہت اہم نفسیاتی نکتہ بھی ہے کہ معاشرے کو جہاں لگتا ہے کہ لڑکی روایت سے الگ سوچ رہی ہے، اس پر شادی بطور سزا فوری مسلط کر دی جاتی ہے۔ اگر اس نے والدین میں سے کسی ایک کا یا دونوں کا نامناسب رویہ شادی کے نام پہ دیکھا ہے تب بھی وہ اس رشتے سے بھاگتی ہے۔ اگر اس کے والدین میں سے کوئی نہیں رہا تو بھی وہ اس رشتے سے لاشعوری طور پہ بھاگتی ہے۔
ایک لاشعوری ڈر اور خلا اس کے اندر ہوتا ہے جسے بھرنے کے لیے وہ کئی فرار کی راہوں پہ چل رہی ہوتی ہے۔
لڑکوں کے ساتھ بھی ایسا ہو جاتا ہے۔ سمیر اور فرجاد دونوں اپنی اپنی جگہ اکلوتے ہونے کی کمی کے شکار ہیں۔
فرجاد نے اپنے والد کی وفات کے بعد جوانی میں ہی ان کا کاروبار سنبھال لیا اور ذمہ داری اس پہ آ گئی۔
وہ وقت کا پابند، شدید پروفیشنل، بہت محنتی، اپنے کام سے کام رکھنے والا لیکن رحم دل بھی ہے، اسی لیے تو امید کو پیسے ادھار دیتا ہے اور اس کی بات پہ یقین بھی کر لیتا ہے۔
شادی سے وہ بھی بھاگتا ہے، اس کا بھی کوئی لاشعوری مسئلہ کہیں پھنسا ہوا ہے۔ اسے کسی لڑکی میں دلچسپی نہیں ہوتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امید کے بھاگ کر اسلام آباد چلے جانے کی وجہ سے اس کی جگہ اس کی کزن حیا کی منگنی ولید سے کر دی جاتی ہے۔ لیکن ولید کو جب یہ علم ہوتا ہے کہ یہ ’عزت بچاؤ‘ منگنی تھی اور امید تو مال دار ہے تو اس کا روایتی لالچی پن کھل کر سامنے آ جاتا ہے، اس لیے وہ حیا سے منگنی توڑ کر امید سے شادی کی امید لگا لیتا ہے لیکن زندگی کی طوفان روانی میں اسد اللہ خان ’غالب‘ آ جاتے ہیں۔
فرجاد منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ان کی بہن جو اسد اللہ کو پسند کرتی تھی، وہ بھی کوئی منفی ردعمل نہیں دیتی، فطری دکھ ضرور محسوس کرتی ہے مگر اسے یقین ہے کہ اس کا بھائی سنڈریلا کو پسند کرنے لگا ہے۔
امید بھی فرجاد کو دل دے بیٹھی ہے۔ دو طرفہ خاموش اور انا پرست محبت کسی بت کے ٹوٹنے کی منتظر ہے تاکہ ان کی انا بچ جائے۔
ان سب واقعات میں سمیر اور حیا کا رستہ تو صاف ہو گیا ہے۔
ٹی وی شو کے میزبان اسد اللہ خان جو ایک جدید و شدید شاعر حضرت بھی دکھائے گئے ہیں۔ شاعری اور شہرت سے بزنس پارٹنر اور منگنی تک آنے میں تو کامیاب ہیں مگر سنڈریلا کو پھر جلال آ گیا ہے اور وہ اس شادی سے بھی بھاگنے والی ہے۔
سنڈریلا بنیادی طور پہ نہ تو سگھڑ ہے، نہ لائق فائق ہے، نہ وہ روایتی نیک اطوار اور پروین سیرت ہے، نہ منافق ہے، بس کم عمری اور ناپختگی، والدہ کی کم عمری میں وفات اور سب کے پیار نے مل ملا کر اس کو من موجی سا بنا دیا ہے۔ اب وہ کسی اور راہ پہ نہیں چل سکتی۔
ایسی لڑکی دیکھنے میں تو بہت اچھی لگتی ہے لیکن اس کو سنبھال کے رکھنے کے لیے سمندروں جیسے حوصلے درکار ہوتے ہیں، جو کسی شاعر یا ایک لالچی انسان میں تو ہو نہیں سکتے۔
لیکن اسد اللہ خان کے ’غالب‘ ہونے سے فرجاد کے اندر ’امید‘ کا دیا روشن ضرور ہوا ہے۔
پاشا صاحب کی حلال کی کمائی اور خلوص نیت بھی رنگ لائے گی۔ یہ بھی وہ بیج ہے جس کی فصل پھل ضرور دیتی ہے۔
پریوں کی کہانیوں کے خواب اونچے بھی ہوتے ہیں اور ان کو تعبیر بھی ملتی ہے۔ چاند رات تک پریوں کے دیس سے چاند نظر بھی آ جائے گا اور چڑھ بھی جائے گا۔
موسیقی بہت عمدہ ہے۔ ڈراما سارا مجید نے لکھا ہے اور سکرپٹ انچارج نے اس کی نوک پلک موتیوں اور شبنمی پھولوں سے سنواری ہے۔
علی حسن کی ہدایات میں یہ ڈراما ہم ٹی وی سے روز نشر ہو رہا ہے۔
ہر جذبے کے حاوی ہونے پر چائے پہ چائے پیتی کراچی کی سنڈریلا نے حسینہ معین کا دور ظرافت و بلاغت یاد کروا دیا ہے۔