پارلیمانی کمیٹی سے الیکشن ایکٹ سے متعلق مجوزہ ترامیم منظور

پارلیمانی کمیٹی نے بدھ کو الیکشن ایکٹ میں ترامیم سے متعلق چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے پیش کی گئیں مجوزہ ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی جانب سے چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کو لکھے گئے خط میں الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون اور سیکشن 58 میں ترامیم تجویز کی تھیں (فائل فوٹو اے ایف پی)

پارلیمانی کمیٹی نے بدھ کو الیکشن ایکٹ میں ترامیم سے متعلق چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے پیش کی گئیں مجوزہ ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔

الیکشن ایکٹ کی مجوزہ ترامیم کے جائزے کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے آغاز میں سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حامد خان نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ادارے کو دیے گئے اختیارات واپس لائے جائیں۔‘

الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون اور 58 میں چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے دی گئیں مجوزہ ترامیم سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ 57 (1) اور 58 کی مناسب جڑیں نہیں ہیں‘۔ جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ یہ دونوں آئین سے متصادم نہیں ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’کیا ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابات کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے اختیارات دے رہے ہیں؟ نئے رول کو اصل تاریخ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔‘

اس موقع پر کنوئنر کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ اگر آئین 90 روز کا کہتا ہے تو اتنے ہی دنوں میں انتخابات ہونے چاہییں۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر کی معقول وجوہات ہونی چاہییں۔

انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ صدر سے اختیار الیکشن کمیشن کو تو ضرور دیا جائے لیکن صدر مملکت کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا جائے۔

نوید قمر نے کہا کہ آئین میں جو کچھ لکھا ہے اس کے دائرے میں رہتے ہوئے الیکشن کمیشن شیڈول اور تاریخ دے، بنیادی طور پر اس کا کام الیکشن کی تاریخ اور شیڈول کا تعین کرنا ہے۔ 

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے نوید قمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کمیٹی ان کی مدد کرے  تو یہ بات تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔ کوئی بھی چیز آئین سے ماورا نہیں ہو سکتی، جو بھی تبدیلی کریں وہ آئین کے تابع ہو۔‘

اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’جوڈیشل ریویو/عدالتی جائزہ بچاتا بھی ہے اور کھاتا بھی ہے۔ الیکشن کمیشن کے آرڈر کی اس سے زیادہ mockery نہیں ہے۔ میری تجویز یہ تھی کہ عدالتوں کو stay سے روکا جائے۔‘

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے اپنے خط میں توہین الیکشن کمیشن کے معاملے کو بھی اٹھایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس خط کا پیراگراف چھ توہین سے متعلق ہے، کوئی بھی عدالت توہین کی کارروائی کو روک نہیں سکتی۔‘

اس پر وزیر قانون نے کہا کہ ’ہمارے پاس پانچ ہائی کورٹ ہیں، ایک ایک معاملہ میں مختلف ہائی کورٹس میں کیسز پڑے ہیں، اب یہ سیاسی جماعتوں کی مرضی ہے وہ کسی بھی کورٹ میں چلے جائیں۔‘

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’ایسی قانون سازی کی جائے کہ الیکشن کمیشن کا وقار  بحال رہے، کوئی بھی عدالت توہین سے متعلق سماعت کو روک نہ سکے۔‘

سیکرٹری الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں، توہین کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ 

بعد ازاں کمیٹی نے چیف الیکشن کمشنر کی مجوزہ ترامیم کی منظوری دے دی۔

یاد رہے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی جانب سے چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کو لکھے گئے خط میں الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون اور سیکشن 58 میں ترامیم تجویز کیں اور پارلیمان کے سامنے منظوری کے لیے پیش کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔

الیکشن ایکٹ (1)57 اور 58 کیا ہے؟

ایکٹ 57: انتخابی پروگرام کا نوٹیفیکیشن 

کمیشن سے مشاورت کے بعد عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان  صدر کریں گے۔

الیکشن ایکٹ 58: انتخابی پروگرام میں تبدیلی

الیکشن کمیشن کسی بھی وقت انتخابی پروگرام میں تبدیلی کر سکتا ہے لیکن پروگرام تبدیلی سے پہلے صدر کو مطلع کرنے کا پابند ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست