پنجاب میں انتخابات کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو خط لکھ کر انتخابی تاریخ کے اعلان اور پول ڈے آگے بڑھانے کا اختیار مانگتے ہوئے الیکشنز ایکٹ کے سیکشن (1)57 اور 58 میں ترامیم تجویز کر دیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے لکھا کہ ’آئین کے تحت الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے والا واحد ادارہ ہے کہ حالات الیکشن کے لیے سازگار ہیں کہ نہیں۔‘
خط کے مندرجات کے مطابق ’الیکشن کمیشن کا اختیار کسی اور اتھارٹی کے ماتحت نہیں۔ یکم مارچ اور پانچ اپریل کے فیصلے نے الیکشن کمیشن کو اپنے آئینی اختیار سے محروم کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اختیار سے محروم کیا گیا کہ وہ فیصلہ کرے کہ ملکی ماحول انتخابات کے انعقاد کے لیے سازگار ہے۔‘
’اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں آئین کے تحت صدر کا الیکشن کی تاریخ دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے، اس لیے الیکشن ایکٹ سیکشن (1)57 اور سیکشن 58 میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ مجوزہ ترمیم کے تحت عام انتخابات کے لیے الیکشن کی تاریخ دینا اور اس میں ترمیم الیکشن کمیشن کا اختیار ہو گا۔‘
چیف الیکشن کمشنر نے سوموار کو سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے علاوہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری پارلیمانی امور کو بھی خط بھجوایا۔ خط میں کہا گیا کہ ’الیکشن ایکٹ (1)57 اور 58 میں ترمیم کریں کیونکہ موجودہ حالات میں یہ ترامیم ضروری ہیں، مجوزہ ترامیم کی منظوری میں چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کردار ادا کریں۔‘
مندرجات کے مطابق ’ (1)57 میں ترمیم کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نوٹیفکیشن کے ذریعے کرے گا اور حلقوں سے نمائندے منتخب کرنے کو کہا جائے گا۔ سیکشن 58 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد الیکشن پروگرام میں تبدیلی کر سکے گا نیز الیکشن کمیشن نئی پولنگ تاریخ کے ساتھ نیا الیکشن پروگرام بھی جاری کر سکنے کا مجاز ہو گا۔‘
الیکشن ایکٹ (1)57 اور 58 کیا ہے؟
ایکٹ 57: انتخابی پروگرام کا نوٹیفیکیشن
کمیشن سے مشاورت کے بعد عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان صدر کریں گے۔
الیکشن ایکٹ 58: انتخابی پروگرام میں تبدیلی
الیکشن کمیشن کسی بھی وقت انتخابی پروگرام میں تبدیلی کر سکتا ہے لیکن پروگرام تبدیلی سے پہلے صدر کو مطلع کرنے کا پابند ہے۔
خط کا تفصیلی متن:
چیف الیکشن کمشنر نے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے نام خط میں لکھا کہ ’پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے تنازع سامنے آیا۔ عدالت کے یکم مارچ اور چار اپریل کے فیصلوں سے تنازعات نے جنم لیا۔ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، لیکن شفاف انتخابات کے لیے کچھ بنیادی شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔‘
’الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات انعقاد کے لیے کوشش کی ، تاہم ان مثالی کوششوں کی معاونت نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن کی رٹ کو منظم طریقے سے چیلنج کیا گیا۔ عملی طور پر الیکشن کمیشن کے اختیار کو ختم کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ انتخابات 90 روز کے اندر کروانے ہیں۔‘
چیف الیکشن کمشنر نے لکھا کہ ’الیکشن کمیشن نے ڈسکہ الیکشن دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی لیکن محکمانہ کارروائی کو ایک طرف رکھ دیا۔ انتظامی افسران کو پیغام گیا کہ وہ سنگین بے ضابطگی کے باجود فیصلوں کے پیچھے چھپ سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی رٹ پر بری طرح سمجھوتا کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے توہین پر نوٹسز جاری کیے گئے۔ چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو جان کی دھمکی ملی اور اور اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’الیکشن کمیشن کو کہا گیا کہ ان کیسز میں فیصلہ نہ کیا جائے۔ توہین کے مرتکب افراد نے الیکشن کمیشن کی کمزور ہوتی رٹ کو بھانپ لیا اور کارروائی میں پیش نہ ہوئے۔ توہین کے مرتکب افراد کے قابل ضمانت وارنٹ کو معطل کیا گیا۔ عدالتی دباؤ کے بہت سے واقعات ہیں جہاں الیکشن کمیشن کی رٹ کو مجروح کیا گیا۔‘
الیکشن کمیشن نے سوالات اٹھائے کہ ’کیا ایسے میں الیکشن کمیشن فراہم کردہ ماحول میں صاف شفاف انتخابات کرا سکتا ہے؟ کیا انتظامیہ، سیاسی نمائندے اور ادارے کمیشن کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا موجودہ حالات میں ان اداروں اور انتظامیہ کے ذریعے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صاف شفاف انتخابات کرائے جا سکتے ہیں؟‘
’ایوان نمائندگان 1976 کے اصل قانون میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر الیکشن تاریخ کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا تھا۔‘
’قومی اسمبلی تحلیل پر صدر کی جانب سے پولنگ تاریخ دینے کی کسی آئینی شق میں تائید نہیں۔ ایوان نمائندگان 1976 کے ایکٹ کے متذکرہ سیکشن میں 1985 کے دوران آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی گئی۔‘
’ترمیم کا مقصد الیکشن انعقاد کے لیے صدر کا کردار بنانا تھا۔ ایوان نمائندگان ایکٹ ترمیم کو ہی الیکشن ایکٹ 2017 میں شامل کیا گیا۔ صدر کی جانب سے الیکشن تاریخ کا اعلان کرنا آئین کی روح کے منافی ہے۔‘