2024 انتخابات: ایک سال میں27 فیصد انتخابی عذر داریوں پر فیصلے

انتخابی عذر داریوں کے برقت طے ہونے سے انتخابات کی ساکھ قدرے بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی یہ تنازعات طویل عرصے تک چل رہے ہیں۔

پاکستان میں 8 فروری 2024 کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کو آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ فارم 45 اور 47 کی بحث اب بھی جاری ہے اور ایسے میں انتخابی عذر داریوں کا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ہائی کورٹ کے درمیان الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا معاملہ سپریم کورٹ اف پاکستان کے حکم پر حل ہوا جس کے مطابق الیکشن ٹربیونل تشکیل دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا۔ نومبر 2024 میں ٹربیونلز تشکیل دیے گئے۔ جہاں فری اینڈ فیئر نیٹ ورک (فافن) کی دو جنوری 2025کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 23الیکشن ٹربیونلز میں کل 377 انتخابی دھاندلی سے متعلق درخواستیں دائر ہوئیں۔ جن میں سے بیشتر پر اب تک فیصلے ہی نہیں کیے جاسکے۔

سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’ابھی تک پنجاب میں صرف 37 دھاندلی کی درخواستیں دائر ہوئیں۔ اگر یہ سب نشستیں بھی اپوزیشن کو مل جائیں تو پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم نہیں ہوسکتی۔‘

پنجاب میں حزب اختلاف کے رہنما ملک احمد خان بچھڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے 280 انتخابی عذر داریاں دائر کر رکھی ہیں۔ کئی پر فیصلے ہوگئے جبکہ بیشتر ابھی زیر سماعت ہیں۔ الیکشن ٹربیونلز بھی بروقت انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ ہم نے سیدھا سیدھا موقف اپنایا ہے کہ فارم 45 کے مطابق فارم 47 کا موازنہ کر لیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘

دھاندلی کے الزامات

پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ کے مطابق ’وفاق اور پنجاب کے دو سو سے زائد مقدمات الیکشن ٹربیونلز میں زیر سماعت ہیں۔ سو وفاق جبکہ اتنی ہی پنجاب میں دھاندلی کر کے ہم سے جیتی گئیں۔ اگر ان پر بروقت فیصلے ہو جائیں تو قومی اور پنجاب اسمبلی ہماری دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ نشستیں بن جائیں گی۔ کچھ نشستیں ایسی ہیں جہاں دوبارہ گنتی سے ہمارے ووٹ مسترد کر کے چھینی گئی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بھر پور دھاندلی کے باوجود ہمیں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں ملیں۔ اب بھی تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت ہے۔ ہم نے جو احتجاج کی کال دی ہے اس سے ہمارے ووٹرز کو اندازہ ہو جائے گا کہ موجودہ حکومت فارم 47 کی پیداوار ہے۔ انہیں عوامی میندیٹ حاصل نہیں ہے۔‘

مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما نوشین افتخار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دھاندلی کا شور کوئی نیا نہیں بلکہ تحریک انصاف 2013سے دھاندلی دھاندلی کا رونا رو رہی ہے۔ جب بھی انتخابات ہارتے ہیں دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں جہاں جیت جائیں وہاں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں خود دھاندلی سے اقتدار ملا تو کوئی شور نہیں مچایا اب 2024 میں شکست ہوئی تو واویلا کرنے لگے ہیں۔ ٹربیونلز تشکیل پا چکے ہیں وہاں انہوں نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی حلقے سے دھاندلی ثابت نہیں کر سکے۔‘

نوشین افتخار نے کہا کہ ’میرے حلقہ انتخاب ڈسکہ میں پی ٹی آئی ایک نہیں کئی بار دھاندلی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے الیکشن کمیشن کے عملے کو اغوا کیا اور تحقیقات میں ثابت ہوا کہ یہ مینڈیٹ چور ہیں۔ 2018 میں آر ٹی ایس بیٹھا کر دھاندلی سے جیت کو کامیابی سمجھتے رہے اس وقت انہیں دھاندلی کا خیال کیوں نہیں آیا؟‘

الیکشن ٹربیونلز کی کارکردگی؟

سابق صدر ہائی کورٹ بار مقصود بٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے رواں سال جون میں صرف حاضر سروس ججز پر مشتمل ٹربیونلز تشکیل دیئے، جنہوں نے انتخابی عذرداریوں کی سماعت بھی شروع کر دی تھی۔ 

’لیکن الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، جس میں کہا گیا کہ ٹربیونلز کی تشکیل کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔ لہذا 30 ستمبر کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دے دیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے تین اکتوبر کو پنجاب میں آٹھ ٹربیونلز تشکیل دے کرآن ڈیوٹی اور ریٹائرڈ ججز تعینات کیے۔ لہذا پہلے ٹربیونلز نے جو کام کیا تھا وہ نئے ٹربیونلز نے مسترد کر کے نئے سرے سے سماعت شروع کی۔ 

’موجودہ ٹربیونلز درخواستوں کو ناقابل سماعت ہونے کی بنیاد پر خارج کر دیتے ہیں۔ شہادتیں ریکارڈ کرائے بغیر درخواستوں کے اخراج کا خوف اتنا ہے کہ کئی متاثرین درخواستیں دائر کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔‘

مقصود بٹر کا کہنا تھا کہ ’ٹربیونلز کی تعداد کے مقابلے میں مقدمات زیادہ ہیں جب کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت بھی ممکن نہیں ہو سکی۔ سیاسی بنیادوں پر کیس قابل سماعت یا ناقابل سماعت قرار دیے جا رہے ہیں۔ اس قسم کے حربوں سے انتخابات سے متعلق مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کے تحت ٹربیونلز نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنا ہوتی ہے۔ اگر وکلا حضرات تاخیری حربے استعمال کریں تو انہیں جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ 

’لیکن ٹربیونلز کی سست روی پر الیکشن کمیشن تنقید کی زد میں ہے۔ کیونکہ ٹربیونلز کی کارکردگی جانچنا یا انہیں ہدایات جاری کرنا الیکشن کمیشن کا ہی اختیار ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فیصلوں میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فریقین ان درخواستوں کے اختیار سماعت یا ٹربیونل کی تشکیل پر عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے ہیں۔ ہائی کورٹ کی جانب سے بنائے گئے ٹربیونلز میں کئی کیس فائنل ہونے والے تھے لیکن فریقین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور ٹربیونلز تبدیل کروا لیے۔ اب ان کیسوں پر نئے سرے سے سماعت ہو گی پھر فیصلہ آئے گا، جس میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔‘

کنور دلشاد نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ تمام ٹربیونلز کو ہدایات جاری کرے کہ وہ انتخابی عذر داریوں سے متعلق فوری فیصلے کریں تاکہ بروقت انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا کہ ’ٹریکنگ سے معلوم ہوا ہے کہ گذشتہ سال 2024  میں 16 نومبر سے 31 دسمبر کے دوران الیکشن ٹربیونلز نے 51 انتخابی عذر داریوں پر فیصلے کیے، اس کے نتیجے میں کل نمٹائی جانے والی الیکشن پٹیشنز کی تعداد 101 ہوگئی جوکہ تمام دائر شدہ پٹیشنز کا 27 فیصد ہیں۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا اب بھی بلوچستان کے مقابلے میں پیچھے ہیں جہاں ٹربیونلز نے کل دائر 51 میں سے 41 پٹیشنز کا فیصلہ کردیا ہے۔

فافن رپورٹ کے مطابق سندھ میں پانچ ٹربیونلز نے 83 میں سے 16 اور خیبرپختونخوا میں چھ ٹربیونلز نے 42 میں سے نو پٹیشنز پر فیصلہ کیا ہے۔ یہ شرح 20 فیصد بنتی ہے، پنجاب میں ٹربیونلز نے 191  میں سے 35  پٹیشنز کا فیصلہ سنایا ہے جوکہ 18 فیصد بنتا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اب تک صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں سے متعلق ایسی عذرداریوں میں سے ایک تہائی اور قومی اسمبلی حلقوں کی 20 فیصد عذرداریوں کو نمٹایا جاسکا ہے۔

صوبائی حلقوں سے متعلق کل 78 پٹیشنز پر فیصلہ کیا جاچکا ہے، ان میں 34 بلوچستان اسمبلی کی، 25 پنجاب اسمبلی کی، 12 سندھ اسمبلی اور سات خیبر پختونخوا اسمبلی کے حلقوں کی ہیں۔ قومی اسمبلی حلقوں سے متعلق نمٹائی جانے والی 23 پٹیشنز میں سے 10 پنجاب سے، سات بلوچستان میں، چار سندھ اور دو خیبر پختونخوا سے تھیں۔

کل نمٹائی جانے والی 101 پٹیشنز میں سے 97 کو ٹربیونلز نے مسترد کیا، تین منظور ہوئیں اور ایک کو پٹیشنر کی وفات کے باعث ہٹا دیا گیا، مسترد کی جانے والی 97 پٹیشنز میں سے 43 کو ناقابل سماعت ہونے کی بنیاد پر، نو کو واپس لیے جانے کی بنیاد پر، 12 کو عدم پیروی اور ایک کو فیس ضابطے کی عدم پیروی پر نمٹایا گیا۔

ٹربیونلز نے 20 پٹیشنز کو سماعت کے بعد باقاعدہ مسترد کیا، باقی ماندہ 11 پٹیشنز کو نمٹائے جانے کی وجوہات کا علم ہونا ابھی باقی ہے۔

جو پٹیشنز مسترد ہوئیں، ان میں سے 32 کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے دائر کیا، 13 کو مسلم لیگ (ن) اور 13 کو ہی آزاد امیدواروں نے دائر کیا تھا۔

فافن رپورٹ میں کہاگیا کہ ’پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ 11 امیدواروں کی اور جمیعت علمائے اسلام کے آٹھ امیدواروں کی پٹیشنز کو مسترد کیا گیا، نیشنل پارٹی کے چار، عوامی نیشنل پارٹی کے تین، جمہوری وطن پارٹی اور پختونخوا عوامی ملی پارٹی کے دو، دو اور بی اے پی، بی این پی، بی این پی اے، جی ڈی اے، ہزار ہ پارٹی، حق دو تحریک، جماعت اسلامی، ٹی ایل پی اور خادمین سندھ کے ایک ایک امیدوار کی پٹیشن مسترد ہوئی۔

جو پٹیشنز دائر ہوئیں ان میں مسلم لیگ ن کے جیتے ہوئے 32 امیدواروں، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 20 کامیاب امیدواروں، پیپلز پارٹی کے 13 جیتے ہوئے امیدواروں، ایم کیو ایم اور آزاد جیتے ہوئے 10,10 امیدواروں کے خلاف  درخواستیں دائر ہوئیں تھیں۔

جے یو آئی  کے سات، نیشنل پارٹی کے دو  جیتے ہوئے امیدواروں کے خلاف پٹیشنز دائر ہوئیں۔

فافن مشاہدہ کے مطابق کم از کم 21 اپیلز سپریم کورٹ میں دائر ہیں جو کہ ان ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف دائر ہوئیں۔

انتخابی عذر داریوں کے برقت طے ہونے سے انتخابات کی ساکھ قدرے بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی یہ تنازعات طویل عرصے تک چل رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست