امریکہ: عدالت کا اسقاط حمل کی دوا تک رسائی برقرار رکھنے کا حکم

اسقاط حمل کے متعلق آئینی حق کو منسوخ کرنے کے ایک سال بعد اس کے متعلق یہ عدالت کا پہلا بڑا فیصلہ ہے۔

15 اپریل 2023 کو لی گئی اس فائل تصویر میں مظاہرین واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سپریم کورٹ میں اسقاط حمل کے حقوق کی حمایت میں ریلی نکال رہے ہیں (اے ایف پی)

امریکی سپریم کورٹ نے بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی اسقاط حمل کی دوا میفیپرسٹون  تک رسائی کو برقرار رکھا ہے جبکہ حکومت کی منظوری کے خلاف اس دوا کے قانونی چیلنجز برقرار ہیں۔

اسقاط حمل کے متعلق آئینی حق کو منسوخ کرنے کے ایک سال بعد اس کے متعلق یہ عدالت کا پہلا بڑا فیصلہ ہے۔

21 اپریل کو ملک کی عدالت کے اس فیصلے سے امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے اس دوا کی منظوری برقرار رہے گی۔

امریکہ میں نصف سے زیادہ اسقاط حمل میں یہ دوا استعمال ہوتی ہے۔ ٹیکساس کے ایک وفاقی جج نے ایک فیصلے میں اسے کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے نفاذ کی اجازت سے لاکھوں امریکیوں کے لیے گہرے اور ممکنہ طور پر خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

ایف ڈی اے کی منظوری برقرار رہے گی اور میفیپرسٹون قانونی اور قابل رسائی رہے گی۔

اب یہ کیس لوزیانا میں پانچویں سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں واپس آ گیا ہے، جہاں دونوں فریقوں اپنے تحریری دلائل جمع کرانے کا موقع ملے گا۔ اس معاملے پر 17 مئی کو تین رکنی پینل کے سامنے بحث کی جائے گی۔

کنزرویٹو جسٹس سیموئل علیٹو اور کلیرنس تھامس نے اس سے اختلاف کیا۔

اسقاط حمل فراہم کرنے والوں اور اسقاط حمل کے حقوق کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ ٹیکساس میں امریکی ڈسٹرکٹ جج میتھیو کاکسمیریک کے فیصلے کو برقرار رکھنے والے فیصلے سے اسقاط حمل کے خلاف سرگرمی کی تاریخ رکھنے والے واحد جج کو لاکھوں امریکیوں کے لیے تولیدی صحت کی دیکھ بھال کے فیصلوں کا تعین کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ نہ صرف ان ریاستوں میں جہاں اسقاط حمل پر پہلے ہی سخت پابندیاں ہیں بلکہ ان ریاستوں میں بھی جہاں دیکھ بھال تک قانونی طور پر رسائی ہے۔

 ایف ڈی اے کے ریگولیٹری اتھارٹی کو محدود کرنے والے اس فیصلے سے دائیں بازو کے حملوں میں دیگر ادویات بشمول کووڈ 19 ویکسینز، برتھ کنٹرول، ایچ آئی وی ادویات اور ہارمونز اور جنس کی تصدیق میں استعمال ہونے والی دیگر ادویات کو بھی اسی طرح کے جانبدارانہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے شروع میں ایک بیان میں کہا تھا، ’اگر یہ فیصلہ برقرار رہتا ہے تو پھر ایف ڈی اے کی جانب سے منظور شدہ کوئی نسخہ نہیں ہوگا جو اس قسم کے سیاسی اور نظریاتی حملوں سے محفوظ ہو۔‘

سپریم کورٹ کی جانب سے جمعہ کو دیے گئے فیصلے کا مطلب ہے کہ ایف ڈی اے کی جانب سے اس دوا کی 23 سال پرانی منظوری برقرار رہے گی جبکہ اسقاط حمل کے خلاف سرگرم ایک گروپ کی جانب سے دائر ہائی پروفائل چیلنج نچلی عدالت میں جاری ہے۔

میفیپرسٹون کو پہلی بار امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے 2000 میں حمل کے ایسے کیسز میں استعمال کرنے کی اجازت دی تھی جو 10 ہفتے پرانے ہوں۔

زیادہ تر اسقاط حمل، حمل کے پہلے نو ہفتوں کے اندر ہوتے ہیں۔ بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے امریکی مرکز کے مطابق، 2019 سے 2020 تک، تقریبا 93 فیصد اسقاط حمل 13 ویں ہفتے سے پہلے کیے گئے تھے۔

2000 میں ایف ڈی اے کی منظوری کے بعد سے 50 لاکھ سے زیادہ خواتین نے اپنا حمل ضائع کرنے کے لیے میفیپرسٹون کا استعمال کیا ہے۔

میفیپرسٹون کو اسقاط حمل کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکن کالج آف اوبسٹیٹریشنز اینڈ گائناکولوجسٹ کے مطابق طبی طور پر تسلیم شدہ حمل میں سے تقریبا 10 فیصد اسقاط حمل کی صورت میں ختم ہوتے ہیں۔

بڑے میڈیکل گروپوں اور گذشتہ دو دہائیوں کے دوران سینکڑوں مطالعات کی تحقیق نے اس دوا کے محفوظ ہونے کی زبردست افادیت کی تصدیق کی ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آئیبوپروفین اور ایسٹامینوفین جیسے عام اووردی-

کاؤنٹر درد سے نجات دلانے والی ادویات کی جگہ استعمال کرنے کے لیے محفوظ ہے اور ادویات اسقاط حمل کے لیے یہ پروٹوکول 60 سے زیادہ دوسرے ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے۔

امریکن کالج آف اوبسٹیٹریشنز اینڈ گائناکولوجسٹ اور امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی اسقاط حمل کے خلاف گروپوں کے چیلنج کی مخالفت کرتے ہوئے اس کیس میں تحریری دلائل دیے ہیں۔

یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈوبس بمقابلہ جیکسن ویمن ہیلتھ آرگنائزیشن کیس  کے فیصلے کے تقریبا ایک سال بعد سامنے آیا ہے۔ اس کیس میں اسقاط حمل کا آئینی حق منسوخ کر دیا گیا تھا اور ریاستی سطح پر اسقاط حمل کے خلاف قوانین اور پابندیوں کی لہر دوڑ گئی تھی۔

اس کے بعد کے مہینوں میں، ایک درجن سے زیادہ ریاستوں نے زیادہ تر حمل کے لیے اسقاط حمل کی دیکھ بھال کو مؤثر طریقے سے غیر قانونی قرار دیا، اور ایک درجن سے زیادہ دیگر نے اسقاط حمل کی ادویات پر پابندی عائد کردی۔

مرکز برائے تولیدی حقوق کی صدر اور سی ای او نینسی نارتھ اپ نے کہا، ’سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک بہت بڑا ریلیف ہے، لیکن ہم ابھی تک مشکلات سے نہیں نکلے۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’ٹیکساس سے باہر نچلی عدالت کے فیصلے کی حقیقت یا قانون میں کوئی بنیاد نہیں، اس کے باوجود اس نے ملک بھر میں مریضوں اور فراہم کنندگان کے لیے افراتفری، الجھن اور خوف و ہراس کا بیج بویا، بشمول ان ریاستوں میں جہاں اسقاط حمل کے حقوق کا مضبوط تحفظ موجود ہے۔ یہ بحران آج حل نہیں ہوا۔‘

اے سی ایل یو ری پروڈکٹو فریڈم پروجیکٹ کی ڈائریکٹر جینیفر ڈلوین نے سپریم کورٹ کے (حالیہ) فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا، ’یہ سوچنا بھی خوفناک ہے کہ امریکی چند گھنٹوں کے اندر اندر اس ملک میں اکثر اسقاط حمل میں استعمال ہونے والی دوا تک رسائی سے محروم ہوگئے اور کئی دہائیوں سے لاکھوں خواتین اس دوا کو حمل محفوظ طریقے سے ختم کرنے یا اسقاط حمل کے علاج کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا، ’مریضوں کو یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا وہ ضروری علاج کرواسکتے ہیں یا نہیں،  ٹوئٹر کی دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

نومبر میں دائیں بازو کے قانونی گروپ الائنس ڈیفینڈنگ فریڈم نے اسقاط حمل کے خلاف سرگرم کارکنوں کے ایک گروپ کی جانب سے ٹیکساس کے شہر امریلو میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایف ڈی اے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔

الائنس ڈیفنس فریڈم نے سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا تھا جس نے بالآخر رو بمقابلہ ویڈ کیس کو کالعدم قرار دے دیا۔

الائنس ڈیفینڈنگ فریڈم کے سینیئر وکیل ایرک بیپٹسٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک بیان میں کہا، ’ایف ڈی اے کو خواتین کی صحت کو پہنچنے والے نقصان کا جواب دینا چاہیے۔‘

صدر بائیڈن نے کہا کہ ان کی انتظامیہ ’خواتین کی صحت پر سیاسی حملوں کے خلاف لڑتی رہے گی‘ اور انہوں نے اپنے اس مطالبے کی تجدید کی کہ کانگریس اسقاط حمل کے علاج کے تحفظ کو قانون میں تبدیل کرے جس کی تصدیق رو بمقابلہ ویڈ کیس نے کی ہے۔

ریپبلکن اکثریت والے ایوان نمائندگان میں اس کا امکان کم ہوتا جا رہا ہے، جس نے اسقاط حمل کے خلاف متعدد اقدامات تجویز کیے ہیں۔

جو بائیڈن نے کہا، ’امریکی عوام کو چاہیے کہ اپنے ووٹ کو اپنی آواز کے طور پر استعمال کرتے رہیں اور ایک ایسی کانگریس کا انتخاب کریں جو رو بمقابلہ ویڈ کیس کے تحفظ کو بحال کرنے کے لیے ایک قانون منظور کرے۔‘

نائب صدر کمالہ ہیرس نے ایک بیان میں کہا کہ انتظامیہ ’خواتین کو اپنے جسم کے بارے میں فیصلے کرنے اور تولیدی صحت کے علاج تک رسائی، بشمول ادویات کے اسقاط حمل کے بارے میں فیصلے کرنے کی آزادی کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔

’خواتین کی اپنے جسم کے بارے میں فیصلے کرنے کی آزادی اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’کسی کو بھی ایک خاتون اور اس کے ڈاکٹر کے درمیان نہیں ہونا چاہیے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا