اصولاً یہ کالم مجھے یوں شروع کرنا چاہیے کہ ’گذشتہ دنوں میں بطور مہمان خصوصی ایک تقریب میں مدعو تھا، وہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی، انہوں نے اپنی زندگی اور کیریئر کے حوالے سے مجھ سے کئی سوالات کیے، میں نے تحمل سے ان کی باتیں سنیں اور انہیں بتایا کہ زندگی کس ڈھنگ سے گزارنی چاہیے، کامیابی کے اصول کیا ہیں، مستقبل کی منصوبہ بندی کیسے کی جاتی ہے، شادی کے لیے لڑکی/ لڑکا کیسے پسند کیا جاتا ہے۔۔۔‘
نوجوانوں نے بڑی دلچسپی سے میری گفتگو سنی، ایک گھنٹے کی تقریب تین گھنٹے پر محیط ہو گئی، کئی نوجوانوں نے بعد میں مجھ سے ذاتی مشورے بھی لیے، میں نوجوانوں کا جذبہ دیکھ کر بہت متاثر ہوا، یہ ہمارا مستقبل ہیں، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی، ہم بنے تم بنے اک دوجے کے لیے۔‘ وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ملک میں چونکہ قحط الرجال ہے اس لیے اپنے ہاں اس قسم کی باتیں کرنے والے لکھاری بھی دانشور کے عہدے پراز خود فائز ہو جاتے ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں، اللہ انہیں خوش رکھے اور ایسے ہی عزت کی روٹی دیتا رہے۔
ویسے عزت کی روٹی سے ایک لطیفہ یاد آ گیا، آپ سب نے سنا ہو گا اس لیے لکھنے کی ضرورت نہیں۔
ضرورت صرف اتنی ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ جولوگ اس قدر یقین کے ساتھ زندگی گزارنےکے بارے میں مشورے دیتے ہیں کیا وہ حقیقی دانشور ہیں اور کیا ان کے مشوروں پر عمل کیا جانا چاہیے؟
ہمارے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہوا ہے کہ ہم نے الفاظ کو بے وقعت کر دیا ہے۔ ایسی صفات جو نہایت احتیاط اور بخل سے کام لے کر استعمال کرنی چاہیے تھیں، انہیں ہم نے ہر کس و ناکس کے نام کے ساتھ لگا کر بے معنی بنادیا ہے۔
دانشور بھی ایسا ہی ایک بد نصیب لفظ ہے۔ ہمارے ملک میں حقیقی دانشوروں کی تعداد شاید آٹے میں نمک کے برابر ہومگر ٹی وی یا سوشل میڈیا کو دیکھیں تو لگتا ہے جیسے ہر یونین کونسل میں دس بیس دانشور موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حقیقی دانشور کیسا ہوتا ہے؟ میری رائے میں دانشور کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات و افکار کی مسلسل پڑتال کرتا رہتا ہے، وہ جامد نظریات کا حامل شخص نہیں ہوتا، اس کا بنیادی مقصد حق اور سچ کی جستجو ہوتی ہے، وہ اپنی انا کا غلام نہیں ہوتا، جہاں اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے وہ فوراً اسے تسلیم کر کے اپنی فکرکو درست کرتا ہے۔
ایسا شخص مخالف رجحانات کے حامل افراد کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، ان خیالات کا کھلے دل سے جائزہ لیتا ہے، اپنے نظریات کو چیلنج کرتا ہے اور اس ضمن میں اپنے تعصبات کو پرے رکھ کر صرف دلیل کی روشنی کوئی رائے قائم کرتا ہے۔
دانشور کی یہ خصوصیت ہی اسے ان عام لوگوں سے ممتاز کرتی ہے جو تمام عمراپنے تعصبات کے اسیر رہتے ہیں۔
یہ تو ہوئی دانشور کی تعریف۔ اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ زندگی، کامیابی، دولت، شہرت، کیریئر اور شادی، کاروبار وغیرہ کے معاملات پر مشورے دیتے ہیں کیا ان کے لیے دانشور ہونا ضروری ہے؟ اور اگر وہ دانشور کی اس تعریف پر پورے نہیں اترتے تو کیا ایسی صورت میں ان کے مشوروں کی کوئی اہمیت ہے؟
اس خاکسار کا خیال ہے کہ ان معاملات آپ کسی بھی سمجھدار شخص سے مشورہ کر سکتے ہیں بلکہ لازمی مشورہ کرنا چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے معاملے میں انسان، خواہ کتنا ہی سیانا کیوں نہ ہو، اکثر درست فیصلہ کرنے میں چوک جاتا ہے۔
ہم جب کسی معاملے میں الجھے ہوتے ہیں تو اس معاملے کواپنی ذات سے علیحدہ کر کے معروضی انداز میں نہیں دیکھ پاتے اور اسی وجہ سے بعض اوقات غلط فیصلہ کرجاتے ہیں۔ نفسیات کی زبان میں اسے سلیمان کا مخمصہ Soloman’s Paradox کہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسروں کے معاملات پر نہایت مفید اور دانشمندانہ مشورے دیتا ہے مگر اپنے معاملات میں اس کی دانش گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور بعض اوقات وہ ایسے احمقانہ فیصلے کرتا ہے جو نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
آپ نے اکثر اس بات کامشاہدہ کیا ہو گا کہ ہم دوسروں کی زندگی، کاروبار، کیریئر اور شادی کے معاملات میں نہایت مفید مشورے دیتے ہیں کیوں کہ ہم ان معاملات میں براہ راست فریق نہیں ہوتے، لہٰذا ہماری رائے بےلاگ اور تعصبات سے پاک ہوتی ہے، جبکہ اپنے معاملے ہم چوں کہ خود پارٹی ہوتے ہیں اس لیے اپنی ذات سے بالا تر ہو کر سوچ نہیں پاتے اور یوں فیصلے میں غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
سو ضروری نہیں کہ زندگی کے معاملات کو سلجھانے کے لیے حقیقی دانشور ہی تلاش کیا جائے، ایک اچھی سوجھ بوجھ والا شخص بھی آپ کو درست فیصلہ کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
اب یہاں دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مشورے پر آنکھیں بند کرکے عمل کر لیا جائے؟
اس کا جواب نہیں میں ہے۔ کسی سیانے آدمی سے مشورہ لینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کو تصویر کو ایسا رخ دکھا دیتا ہے جو آپ کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے، جب آپ وہ رخ دیکھ لیں تو اس کے بعد فیصلہ خود کریں کہ کیا کرنا ہے کیوں کہ ہر شخص کی زندگی، حالات اور مقدر دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ کامیابی کا جو کلیہ الف کے لیے کارگر ثابت ہو وہ ب کے لیے بھی مفید ہو۔ ہر بندے کی شخصیت دوسرے سے جدا ہوتی ہے، اس کا مزاج مختلف ہوتا ہے، اس کی صلاحیت میں فرق ہوتا ہے لہٰذا کامیابی کا کوئی ایک فارمولا نہیں بنایا جا سکتا جسے استعمال کر کے بندہ امر ہوجائے۔
انسانی رشتوں میں تو یہ بات مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ میاں بیوی کی بول چال برسوں سے بند ہے مگر وہ علیحدہ نہیں ہوتے اور بچوں کی وجہ سے یا کسی بھی دوسری مجبوری کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کو گھسیٹتے رہتے ہیں۔ کوئی تیسرا شخص اگر یہ دیکھے تو لا محالہ یہی مشورہ دے گا کہ انہیں علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔
بالکل اسی طرح جیسے ہم کسی فلم میں کوئی کردار دیکھتے ہیں تو فوراً اس کی جگہ خود کو رکھ کر فیصلہ صادر کردیتے ہیں کہ اسے تو یوں کرنا چاہیے تھا اور یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ اس کردار کی شخصیت ہم سے مختلف ہے۔
یہ کالم لکھنے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ میں نے جس مربیانہ انداز میں آپ کومشورے دیے ہیں اس سے یوں لگتا ہے جیسے میں خود کو کم از کم بستہ الف کا دانشورضرور سمجھتا ہوں۔
اب ’جنریشن زی‘ کے جن نوجوانوں کو بستہ الف کا علم نہیں، انہیں میرا مشورہ ہے کہ کبھی کبھار نصاب کے علاوہ بھی کوئی کتاب کھول کر دیکھ لیا کریں، افاقہ ہو گا۔ والسلام۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔