افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے دوحہ میں اقوام متحدہ کی میزبان میں پیر کو افغانستان سے متعلق ہونے والے اجلاس کے بارے میں کہا ہے کہ کوئی بھی اجلاس افغان حکومت کے نمائندوں کے بغیر غیرموثر ہے۔
دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’امارات اسلامیہ جو مسئلہ کا بنیادی فریق ہے اگر اس کے نمائندوں کے بغیر کوئی بھی اجلاس غیرموثر ہے اور بعض اوقات خلاف منشا بھی ہو سکتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش پیر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان سے متعلق اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں، جس میں طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اس اجلاس میں پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر بھی شرکت کر رہی ہیں۔
اجلاس سے متعلق اپنے بیان میں سہیل شاہین نے کہا ہے کہ ’یہ افغانستان کی امارات اسلامیہ کا قانونی حق ہے کہ اسے ایسے اجلاسوں میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع دیا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسے اجلاس میں لیے جانے والے فیصلے کیسے قابل قبول یا نافذ ہو سکتے ہیں جبکہ ہم اس عمل کا حصہ ہی نہیں ہیں۔‘
سہیل شاہین نے کہا کہ ’یہ تفریق اور بلاجواز ہے۔‘
دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کسی خفیہ مقام پر ہونے والے ان دو روزہ مذاکرات سے قبل خواتین کے ایک چھوٹے سے گروپ نے ہفتے کو کابل میں طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
تاہم اقوام متحدہ اور مغربی طاقتیں اس بات پر بضد ہیں کہ اس پر بات نہیں کی جائے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل کا کہنا ہے کہ ’طالبان کو کسی طور تسلیم کرنے پر غور نہیں ہوگا۔‘
اس بات کی تصدیق کرنے کے علاوہ کہ طالبان قیادت شرکا کی فہرست میں شامل نہیں ہے، اقوام متحدہ نے قطر کے دارالحکومت میں اس اجلاس کے مقام یا گوتریش کے ساتھ کون شامل ہوگا، اس بارے میں تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
طالبان کے نائب وزیر برائے پناہ گزین محمد ارسلا خروٹی نے اتوار کو کہا تھا کہ ’اس طرح کی ملاقاتوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔‘
انہوں نے کابل ہوائی اڈے پر اے ایف پی کو بتایا، ’جب تک وہ امارت (طالبان کے زیر اقتدار افغانستان) کے ساتھ مناسب تعلقات قائم نہیں کرتے اور امارت کی کوئی نمائندگی موجود نہیں ہوتی، یہ ملاقاتیں بڑی حد تک کامیاب نہیں ہوں گی۔‘
اس اجلاس کا خیال جنوری میں اقوام متحدہ کے سینیئر عہدےداروں کے کابل کے دورے کے بعد سامنے آیا تھا جو افغان خواتین کو ملازمت دینے والی غیر سرکاری تنظیموں پر پابندی کے بارے میں امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
خاص طور پر اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل امینہ محمد کو یہ احساس ہوا کہ امارت سے بات چیت کے لیے ایک سیاسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
تاہم حالیہ دنوں میں دوحہ کا اجلاس طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور کی تجویز پر تنازعات کا شکار ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان کی جانب سے اس تجویز کی فوری اور واضح طور پر تردید کی گئی۔
طالبان کی جانب سے افغان خواتین کو اقوام متحدہ میں ملازمت دینے پر عائد پابندی میں تقریباً ایک ماہ قبل کی گئی توسیع نے سب کچھ مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
دوحہ اجلاس بند کمروں میں ہوگا جس میں سیکریٹری جنرل گوتریش افغانستان کے لیے خصوصی سفیروں کی میزبانی کریں گے۔
شرکا کی فہرست جاری نہیں کی گئی ہے لیکن توقع ہے کہ خطے کے ممالک اور بڑے عطیہ دہندگان اس میں شامل ہوں گے۔ افغانستان کے لیے سیکریٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ اور ان کے نائب برائے سیاسی امور کابل سے آئے ہیں۔
میڈیا میں اس بارے میں بہت سی قیاس آرائیوں کے بعد کہ آیا طالبان اس اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے تصدیق کی کہ جولائی 2022 میں ازبکستان کے شہر تاشقند میں ہونے والے اس طرح کے آخری اجلاس کے برعکس سیکریٹری جنرل نے طالبان حکام کو دعوت نہیں دی ہے۔
یہ اجلاس بین الاقوامی قوتوں، افغانستان میں دلچسپی رکھنے والے ممالک اور اقوام متحدہ کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ طالبان سے نمٹنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرسکیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گوتریش کی نائب امینہ محمد نے گذشتہ ہفتے تجویز پیش کی تھی کہ دوحہ میں ہونے والی میٹنگ ’ان چھوٹے اقدامات کو تلاش کر سکتی ہے جو ہمیں (نئی حکومت) کو تسلیم کرنے کے راستے پر ڈال سکتے ہیں۔‘
طالبان کا موقف رہا ہے کہ وہ اسلامی قانون کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ طالبان حکام نے کہا کہ خواتین امدادی کارکنوں کے بارے میں فیصلے اندرونی مسئلہ‘ ہیں۔
طالبان اور باقی دنیا کے درمیان تعلقات اتنے مشکل کیوں ہیں؟
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان اور افغانستان کے بہت سے جمہوری دور کے اتحادیوں کے درمیان تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ جمہوریہ کے خاتمے کے ابتدائی مہینوں میں، اگرچہ طالبان نے فوجی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد – جیسا کہ بہت سے بین الاقوامی قوتوں نے دیکھا – انہوں نے دوسرے افغانوں کے ساتھ مذاکرات کا وعدہ توڑ دیا۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسے تین کروڑ 80 لاکھ آبادی والے ملک میں اپنے وسیع آپریشن کو جاری رکھنے کے بارے میں ’خوفناک فیصلے‘ کا سامنا ہے۔
طالبان کے قبضے سے قبل 2020 اور 2021 میں دوحہ میں بات چیت نے کچھ امید پیدا کی تھی کہ اس بار طالبان مختلف طرز عمل اختیار کر سکتے ہیں اور افغان عوام یعنی خواتین اور لڑکیوں، میڈیا اور مظاہرین کے حقوق اور آزادیوں کا احترام کر سکتے ہیں۔ اور یہ کہ سابق عہدیداروں اور فوج کو دی جانے والی سرکاری معافی کا احترام کیا جائے گا۔ سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنا، ’تعمیری مذاکرات‘ شروع کرنا اور ترقیاتی امداد کا دوبارہ آغاز اس وقت میز پر تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، اگرچہ مٹھی بھر سفارت خانے اب طالبان کے مقرر کردہ افراد کے ہاتھوں میں ہیں اور کچھ ممالک نے کابل میں مشن کھولے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اس بارے میں بہت کم اشارے دیئے ہیں کہ اجلاس میں کیا تجاویز پیش کی جا سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے جمعے کو کہا کہ اس کا مقصد ’افغانستان کے مسئلے پر پائیدار پیش رفت کے لیے مشترکہ مقاصد کے بارے میں بین الاقوامی روابط کو دوبارہ تقویت دینا ہے۔‘
عالمی ادارہ خواتین اور انسانی حقوق، دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے بارے میں ’اتحاد یا متفقہ پیغام‘ بھی دینا چاہتا ہے۔
افغانستان میں امریکی سفیر تھامس ویسٹ حالیہ ہفتوں کے دوران مغربی ایشیا کا دورہ کر کے مختلف حکومتوں اور گروپوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
گذشتہ سال امریکہ نے ضبط کیے گئے 3.5 ارب ڈالر کے افغان اثاثوں کو سوئٹزرلینڈ کے ایک فنڈ میں منتقل کیا تھا تاکہ ریلیف اور درآمدات کی ادائیگی کی جا سکے۔ اثاثے جو امریکہ اور یورپ میں موجود ہیں، اقتدار میں تبدیلی کے بعد سے منجمد ہیں۔
امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیاں، جو قبضے سے پہلے طالبان یا انفرادی ارکان پر لاگو ہوتی تھیں، اب اس ملک پر لاگو ہیں۔ ان پابندیوں میں متعدد رعایتیں دی گئی ہیں جن سے زیادہ تر تجارت، ترسیلات زر کے بہاؤ اور امداد کو ممکن بنایا جا سکتا ہے، لیکن ان کا اب بھی کاروبار اور دیگر مالی رابطوں پر خوفناک اثر پڑتا ہے کیونکہ غیر ملکی نمائندہ بینک، جو ملکی اور بین الاقوامی بینکوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں، افغان بینکوں کے ساتھ معاملات کرنے سے ہچکچارہے ہیں۔