افغانستان کی موجودہ صورت حال پر غور کے لیے اس کے پڑوسی ممالک کا چوتھا اجلاس 13 اپریل کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں منعقد ہوا، جس کے دوران افغانستان کو درپیش مسائل اور افغان طالبان کی پالیسیوں پر غور کیا گیا جبکہ ہمسایہ ممالک نے تعمیری روابط پر زور دیا۔
پاکستان کی نمائندگی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے کی جبکہ طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا پہلا اجلاس پاکستان، دوسرا ایران اور تیسرا اجلاس چین میں ہو چکا ہے۔
تازہ اجلاس کے بعد کویی مشترکہ اعلامیہ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔
افغانستان کے بعض ہمسایہ ممالک نے شدت پسند گروہوں کی موجودگی، منشیات، انسانی سمگلنگ، اقتصادی بحران اور ان ممالک میں موجود افغان پناہ گزینوں میں اضافے کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رکھا ہے۔
ایران، چین، روس اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے اس موقعے پر خواتین کی ملازمت اور تعلیم پر پابندیوں کا معاملے بھی اٹھایا۔
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق وزیر خارجہ کین گینگ نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان کی طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے حقوق پر لگائی گئی حالیہ پالیسیوں کے اثرات کے بارے میں ’فکرمند‘ ہے۔
سمرقند میں ہونے والے علاقائی سربراہی اجلاس میں کین گینگ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا، جب قدامت پسند طالبان حکام کی جانب سے خواتین کو اقوام متحدہ میں کام کرنے سے روکنے کے فیصلے پر بین الاقوامی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق چین اور افغانستان کے دیگر دوست ہمسایہ ممالک کو افغان جانب سے حالیہ پالیسیوں اور اقدامات اور افغان خواتین کے بنیادی حقوق اور مفادات پر ان کے ممکنہ اثرات پر تشویش ہے۔
تاہم وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اگرچہ خواتین کے حقوق اور مفادات کا مسئلہ بہت اہم ہے لیکن یہ افغانستان کا پورا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ افغانستان کے مسائل کی بنیاد یا بنیادی وجہ ہے۔
ازبکستان سمرقند کې د افغانستان په تړاو د سیمي له خارجه وزیرانو سره د ناستي او پایلو په هکله د ا.ا.ا. د بهرنیو چارو وزیر څرګندوني. pic.twitter.com/bX47kiXMKd
— Hafiz Zia Ahmad (@HafizZiaAhmad1) April 13, 2023
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس مسئلے سے آنکھیں بند نہیں کرنی چاہییں اور نہ ہی اسے نظر انداز کرنا چاہیے۔
چین کی وزارت خارجہ نے رواں ہفتے چین کے وسطی ایشیا کے دورے سے قبل افغانستان کے بارے میں ایک پیپر جاری کیا تھا، جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ وہ ’افغان عوام کی جانب سے کیے گئے آزادانہ فیصلوں کا احترام کرتا ہے اور مذہبی عقائد اور قومی روایات کا احترام کرتا ہے۔‘
پیپر میں مزید کہا گیا کہ چین کبھی بھی ’افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت‘ اور نہ ہی ’نام نہاد اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔‘
چین کے صدر وانگ وین بن نے کہا کہ چین افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کو بڑھانے کے لیے تیار ہے تاکہ افغانستان کو جلد از جلد مستحکم ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور خطے میں پائیدار سلامتی، خوشحالی اور ترقی کے حصول میں مدد ملے۔
افغان سیاسی تجزیہ کار سید مقدم امین نے طلوع نیوز کو بتایا کہ ’قریبی ممالک اہم ہیں اور یہ ممالک قومی اور بین الاقوامی مشکلات کو حل کرنے کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔‘
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک بیان میں ایسی ملاقاتوں کو استحکام، سلامتی اور معاشی بہبود کے لیے اہم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم افغانستان کو کبھی بھی منفی تنازعات اور ناجائز دشمنیوں کا مرکز نہیں بننے دیں گے۔ افغانستان اپنے اس وعدے پر قائم ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کو خطے کی سرزمین پر قبضہ کرنے یا دنیا کے کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ہم خطے کی سلامتی، استحکام اور اقتصادی رابطے میں افغانستان کے قومی مفادات کی وضاحت کرتے ہیں اور یہ ایک ایسی بحث ہے جو ہمارے پورے خطے کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے۔‘
سب سے اہم روس، ایران، چین اور پاکستان کے درمیان چار فریقی اجلاس تھا جس میں تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے اعلیٰ سطح کے سفارت کاروں نے شرکت کی۔
اس چار فریقی اجلاس کے مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اجلاس میں افغانستان کی علاقائی سالمیت کے تحفظ اور افغانوں کی سربراہی میں ہمہ گیر حکومت کے قیام پر زور دیا گیا۔
مشترکہ بیان کا ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ شرکا نے جہاں افغانستان کی موجودہ سکیورٹی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا، وہیں انہوں نے بہت سے عسکریت پسند گروپوں کی سرگرمیوں اور ان کی جانب سے ان سے لاحق خطرات اور بین الاقوامی سلامتی کو سنگین قرار دیا۔
اعلامیے میں افغانستان کے حکمرانوں سے اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے کی درخواست کی گئی۔
انہوں نے امریکہ سے یہ بھی کہا کہ وہ موجودہ خراب صورت حال کی ذمہ داری قبول کرے اور پابندیوں کے ذریعے افغانستان اور اس کے عوام کے لیے مزید مسائل پیدا نہ کرے۔
روس کی وزارت خارجہ نے لکھا ہے کہ وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے سمرقند اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ خطے کے ممالک کو سیاسی تصفیہ، انسانی امداد اور سماجی و اقتصادی صورتحال کے عمل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس طرح ماسکو نے افغان تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک پانچ طرفہ پلیٹ فارم بنانے کی تجویز پیش کی ہے جس میں روس، چین، بھارت، ایران اور پاکستان رکن ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روس کا کہنا ہے کہ اس کی کوشش ہے کہ شرکا کو ٹرانسپورٹ اور توانائی کے ان منصوبوں پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے، جن پر علاقائی اقتصادی ترقی کے لیے کابل کے ساتھ اتفاق کیا گیا ہے۔
روس اور وسطی ایشیا کے ممالک جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ راستہ اور اپنی توانائی کے لیے مارکیٹ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پرعزم ہیں اور اس سلسلے میں دیگر علاقائی مفادات کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے تمام ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ حنا ربانی کھر نے ازبکستان کی وزیر خارجہ سے ملاقات میں افغانستان، ازبکستان اور پاکستان کے درمیان ریلوے لائن کی تکمیل اور علاقائی رابطوں پر تبادلہ خیال کیا۔
افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس کا سلسلہ پاکستان نے 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان کے بعض عہدیداروں پر عائد سفری پابندیاں اب بھی برقرار ہیں لیکن اس بار ہمسایہ ممالک کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کی صورت حال سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں اس لیے اس حوالے سے مداخلت کرنا ان کا حق ہے۔