طالبان حکام نے افغانستان کے دو صوبوں میں خواتین کے عید کے اجتماعات میں شرکت پر پابندی عائد کر دی۔
یہ پابندی ایسے وقت عائد کی گئی ہے جب ملک میں ماہ رمضان کے اختتام پر منائے جانے والے تہوار کے حوالے سے وسیع تقریبات کے انعقاد کی توقع کی جا رہی ہے۔
شمالی بغلان ضلع اور تخار کے شمال مشرقی ضلع میں مقامی طالبان رہنماؤں کی جانب سے جاری اسی طرح کے دو نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ ’جمعے کو عید الفطر کے دن خواتین کے لیے گروپوں میں باہر جانا منع ہے۔‘
یہ احکامات پورے افغانستان میں لاگو نہیں ہوتے بلکہ صرف دو اضلاع میں نافذ کیے گئے ہیں۔
یہ اقدام طالبان کی تازہ ترین پابندیوں کے اعلان کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے جب افغانستان کے شمال مغربی صوبہ ہرات میں باغوں اور کھلے سبزہ زاروں والے ریستورانوں میں فیملیز اور خواتین پر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ ایسی جگہوں پر جنس کے اختلاط کے مخالف مذہبی علما اور عوام کی شکایات کے بعد حکم نامے کے تحت خواتین کے گارڈنز والے ریستورانوں میں جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
In a new decree on the occasion of the upcoming Eid, the Taliban have ordered that #women are not allowed to travel or walk outside during the days of Eid.
— Natiq Malikzada (@natiqmalikzada) April 19, 2023
The decree also states that it is mandatory to mention Hibatullah Akhundzada's name in Eid prayers. #Afghanistan pic.twitter.com/Ycq8fMZXzq
After Takhar, Taliban in Baghlan banned women from going out in groups on Eid days. @AminaJMohammed https://t.co/pJBTI1MeUl
— Abu Muslim Shirzad (@MuslimShirzad) April 19, 2023
رواں ہفتے کے آغاز پر طالبان کے رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ نے قوم کے نام پانچ زبانوں یعنی عربی، دری، انگریزی، پشتو اور اردو میں عید کا پیغام جاری کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رمضان کے اختتام پر جاری پیغام میں ہبت اللہ اخوندزادہ نے اگست 2021 میں انتظامیہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغانستان میں ’ترقی‘ لانے پر طالبان کی تعریف کی۔
انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا: ’20 سالہ قبضے کے بُرے فکری اور اخلاقی اثرات ختم ہونے والے ہیں۔‘
انہوں نے شریعت یا اسلامی قانون کی ’روشنی میں زندگی گزارنے‘ پر بھی تعریف کی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان رہنما نے افغانستان میں داخلی قوانین اور پالیسیوں کو ترتیب دینے میں ایک مضبوط کردار ادا کیا ہے جن میں چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اور افغان خواتین کو عوامی زندگی اور غیر سرکاری تنظیموں اور اقوام متحدہ میں کام کرنے سے روکنا خاص طور پر شامل ہے۔
افغانستان میں خواتین کے پارکوں اور جم جیسی عوامی جگہوں پر جانے پر طالبان پہلے ہی پابندی لگا چکے ہیں۔ ان اقدامات نے بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور ایسے وقت میں ملک کی تنہائی کو مزید بڑھایا ہے جب افغانستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور انسانی بحران مزید بگڑ چکا ہے۔
© The Independent