عدالت کا کام آئین میں اپنی خواہش و منشا یا کسی اہم شخصیت کے فوائد میں ترمیم کرنا نہیں بلکہ آئین کی روح کے مطابق تشریح کرنا ہوتا ہے۔
آئین میں ترامیم کرنے کا طریقہ واضح ہے۔ اگر آئین کے کسی آرٹیکل میں ترمیم کرنا مقصود ہو تو قومی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے ترمیم کی جا سکتی ہے اور عدالت کو چاہیے کہ موجودہ کشمکش اور سیاسی محاذ آرائی میں اپنی آئینی ساکھ کو برقرار رکھتے ہوئے معمول کے مطابق اپنی رائے کو آئین کی تشریح تک محدود رکھیں۔
ملکی مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے کیونکہ سیاسی اور انتخابی معاملات پارلیمان کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
پاکستان اپنے وجود کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس بھنور سے نکلنے کے لیے پاکستان کا سیاسی نظام تبدیل کرنا ہو گا اور ازسرِ نو آئینی اصلاحات کمیشن بنا کر عوامی مفاد کے تحت ترمیم کر کے ملک میں ایسا انتخابی نظام وضع کیا جانا چاہیے، جس سے ملک میں جاری استحکام پیدا ہونے کے اثرات سامنے آئیں اور انتخابی نتائج کو سٹیک ہولڈرز تسلیم کر کے ملک میں مضبوط سیاسی حکومت تشکیل دی جائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل کے لیے ایسا طریقہ وضع کیا جائے کہ کسی بھی جماعت کی طرف سے تحفظات کا اظہار نہ کیا جائے۔ ملک میں صاف گو، جاندار اور باوقار شخصیت کا فقدان نہیں ہے، صرف نیک نیتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلہ کرنا ہوگا۔
ملک کے انتخابی بحران کے حل کے لیے فل کورٹ تشکیل دے کر انتخابی شیڈول کا متفقہ فیصلہ کیا جائے اور اسی سال مقررہ مدت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن حسب روایت کروا کے آئین کے آرٹیکل 218 (3) اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 57 اور 58 کے مطابق الیکشن کمیشن کو آئینی طور پر اہم ذمہ داری سپرد کی جائے۔
اس وقت ایک اہم شخصیت کے خلاف مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان کا فیصلہ بروقت کر دیا جائے اور الیکشن کمیشن میں جو ناکام ترین کرپٹ پریکٹس اور توہین الیکشن کمیشن کے مقدمات زیرسماعت ہیں، ان کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عدالت الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہ کرے اور آئین کے آرٹیکل 46، 48 اور دیگر آئینی طریقہ کو بروئے کار لایا جائے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے الیکشن کمیشن کی خود مختاری کے حوالے سے جو خطوط سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور وزیراعظم کو لکھے ہیں، اس پر بھی معزز چیف جسٹس آف پاکستان کو ذاتی طور پر ان خطوط کا مطالعہ کر کے کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے۔
پاکستان کے انتخابی نظام نے سوائے بدعنوانی، قرضے معاف کروانے اور بیرونِ ممالک اثاثے بنانے کے قوم کو کچھ نہیں دیا۔ اس آئین شکنی کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔
شکست آرزو، فکر و انتشار اور مایوسی کے باعث پورے پانچ سالوں کے بعد ہمارے قدم ایک بار پھر خستہ حال مکینوں کی طرح گرد آلود ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے 1973 کا آئین مرتب کرتے وقت شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو ان اختیارات سے محروم رکھا گیا۔
ملک میں سیاسی انتشار نہایت تشویش ناک ہے۔ معاشی استحکام اور عوام کی خوشنودی کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے۔ سیاسی عناصر کے مابین اقتدار کی رسہ کشی کی وجہ سے عوام کی فلاح و بہبود اور معاشی صورت حال بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستان کے عوام ایک طویل عرصہ سے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور اعلیٰ عدالتوں نے بھی آئین کے آرٹیکل 3 کی روح پر غور نہیں کیا اور آج تک جتنی بھی منتخب حکومتیں آتی رہی ہیں، کسی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 3 پر عمل درآمد نہیں کروایا جو ملک کو فلاحی ریاست کی طرف گامزن کرنے کے لیے آئینی راستہ دکھا رہا ہے۔
ہماری اعلیٰ عدالتیں اشرافیہ کے مفادات کی خاطر آئین کے آرٹیکل 184(3) کا سہارا لیتی رہیں، لیکن اعلیٰ عدالت نے منتخب نمائندوں سے آئین کے آرٹیکل 3 کی صریحاً خلاف ورزی پر کبھی بھی پوچھ گچھ نہیں کی، جب کہ پارلیمانی ارکان نے تاریک ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت سپریم کورٹ کا آٹھ رکنی بینچ کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے عوامی مفادِ عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے آٹھ مئی کی تاریخ دوبارہ مقرر کر دی ہے تاکہ اس کے تمام پہلوؤں پر غور و غوض کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسے اصولی طور پر پارلیمان کے ایکٹ میں آرٹیکل 184 کے تحت ازحود نوٹس لینے کا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت مزید ترمیم کی جا سکتی ہے، جس سے سپریم کورٹ کی بالادستی برقرار رہے اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی جج کے خلاف شکایت دائر کرنے سے اس کو غیر فعال نہیں کیا جا سکتا، جب تک سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل ان کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ سنا دے۔
لیکن عموماً ایسے جج صاحبان جب تک جوڈیشل کونسل کا فیصلہ نہ آئے، کسی سماعت کا حصہ نہیں بنتے۔
چوہدری پرویز الٰہی ان دنوں مختلف مقدمات کی گرداب میں ہیں۔ بطور وزیراعلیٰ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پنجاب میں مثالی تعمیراتی کام کیے تھے، لیکن اپنی چند ماہ کی وزارت اعلیٰ میں ان کی کارکردگی کرپشن کی آلودگی میں آ چکی تھی۔
وہ اپنے پرنسپل سیکرٹری کے سحر میں آ کر تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ چکے تھے اور ان کے خصوصی سیکرٹری سکندر کے کسی بھی مشورے کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اپنے پرنسپل سیکرٹری کی سازشوں کا شکار ہو گئے اور موصوف اب وعدہ معاف گواہ بن کر اپنے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی کو اپنے خلاف تمام مقدمات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین سے صلح کرنی چاہیے۔ ان کی سیاست کا محور ہی خاندان کی طاقت ہے۔ خاندان کی تقسیم ہونے پر دونوں گھرانوں کو سیاسی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اور چوہدری پرویز الٰہی آئندہ انتخابات میں عمران خان کے آشیرباد سے رکن صوبائی اسمبلی تو منتخب ہو سکتے ہیں لیکن وزارت اعلیٰ کا خواب پورا نہیں ہو گا۔
الیکشن کے بعد حالات تبدیل ہو کر وفاداریاں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کا سیاسی مستقبل اپنے خاندان میں ہی پوشیدہ ہے۔ پنجاب میں ان کا اثر و رسوخ متحدہ خاندان کی مرہونِ منت ہے۔
پنجاب اور دیگر صوبوں میں بمعہ قومی اسمبلی کے الیکشن 15 اکتوبر کو ہی متوقع ہیں۔ 12 اگست کو قومی اسمبلی اور 15 اگست کو صوبہ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی اور اس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو ہی بروئے کار لایا جائے گا، یہی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 58 کا حصہ ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔