پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں وادی نیلم کے قصبے کنڈل شاہی کے وسط میں شاہراہ نیلم کے کنارے واقع اپنے چھوٹے سے بک سٹور پر 35 سالہ حافظ نصیر الدین خریداروں کے ساتھ مصروف ہیں۔ ان خریداروں میں زیادہ تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے، تاہم کئی خواتین اور بزرگ بھی بک سٹور پر آ رہے ہیں۔ خریداروں کی اکثریت بک سٹور کے سامنے لگے اُس سٹال پر جمع ہے جہاں جھنڈے، بیجز اور دوسری نمائشی اشیا رکھی ہیں۔ زیادہ تر لوگ کشمیر کے جھنڈے اور بیج خریدنا چاہتے ہیں۔
حافظ نصیر الدین کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر پاکستانی جھنڈے کے ساتھ کشمیر کا جھنڈا لہرانے کے اعلان سے قبل ہی پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کشمیری جھنڈے کی فروخت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کئی شہروں میں ان جھنڈوں کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
پانچ اگست کو بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے اور کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی جلوسوں اور ریلیوں میں کشمیری جھنڈے کے استعمال میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں تبدیلی کے بعد اب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا علیحدہ ریاستی آئین اور جھنڈا رکھنے کا حق ختم کر دیا گیا اور اب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرکاری عمارتوں پر صرف بھارت کا قومی پرچم ہی لہرائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدہ علیحدہ رنگوں کے ریاستی جھنڈے استعمال ہوتے رہے ہیں جبکہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند گذشتہ چند سالوں سے احتجاجی جلوسوں اور ریلیوں میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا پرچم لہراتے رہے ہیں۔
حافظ نصیر الدین کے بقول پانچ اگست کے بعد کشمیری جھنڈے کی فروخت میں ایک دم اضافہ ہوا ہے اور راولپنڈی، لاہور اور سیالکوٹ جیسے شہروں میں، جہاں یہ جھنڈے تیار ہوتے ہیں اور ہول سیل ڈیلر موجود ہیں، وہاں بھی اب کشمیری جھنڈے اور بیجز دستیاب نہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے حافظ نصیر الدین کا کہنا تھا: ’ہم لوگ کم از کم دو سال کی ضرورت جتنا ذخیرہ رکھتے تھے تاہم اس مرتبہ یہ سٹاک محض تین دن میں ختم ہو گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہول سیل ڈیلر اور بنانے والے بھی نیا سٹاک مارکیٹ میں لانے کے لیے کم از کم ایک ہفتے کا وقت دے رہے ہیں۔ ’عام طور پر کشمیری جھنڈے سال میں چند ایک موقعوں پر ہی فروخت ہوتے تھے تاہم اچانک اس کی طلب بڑھنے اور رَسد کم ہونے کے باعث مارکیٹ میں جھنڈوں کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور ہمارے پاس اب نہ صرف مقامی سطح پر ان کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کئی بڑے شہروں سے بھی ڈیمانڈز آرہی ہیں۔ کئی شہروں میں تو تاجروں نے کشمیری جھنڈے کی قیمتیں بھی بڑھا دی ہیں۔‘
حافظ نصیر الدین کے بقول 14 اگست کو پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر لوگ پاکستان کے پرچم، بیجز اور دوسری اشیا خریدا کرتے تھے۔ بہت کم لوگ پاکستانی جھنڈے کے ساتھ کشمیری جھنڈا بھی خریدتے تھے، مگر اس بار پاکستان کے جھنڈے کی فروخت کم جبکہ کشمیری جھنڈوں کی فروخت کئی گنا زیادہ ہے۔ بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین سب ہی کشمیر کا جھنڈا خریدنا چاہتے ہیں۔‘
سٹال پر موجود ایک خریدار مصباح ممتاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میں نے تین جھنڈے خریدے ہیں، ایک گھر پر لہراؤں گا، ایک اپنی موٹر سائیکل پر لگاؤں گا اور ایک اپنے ایک سال کے بیٹے کو دوں گا۔‘
ایک اور خریدار فیاض قریشی کے بقول: ’بطور کشمیری ہم ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ کشمیر کا جھنڈا ہماری پہچان ہے اور میری تمام کشمیریوں سے گزارش ہے کہ اپنی شناخت بچانے کے لیے اس جھنڈے کا استعمال کریں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ ہم اپنی پہچان کسی صورت ختم نہیں ہونے دیں گے۔‘