ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش ابراہام معاہدوں پر دستخط کے بعد پکے ہوئے آم کی طرح تل ابیب کی جھولی میں آ گرے تھے۔ امریکی رائے عامہ اور قسمت نے ٹرمپ کی یاوری نہیں کی ورنہ ان کے یہودی داماد جیرڈ کشنر کے ذہن رسا سے فلسطین کے بارے میں گمراہ کن تاریخی حقائق پیش کرنے کا جو سلسلہ چل نکلا تھا عجب نہ تھا کہ عرب اور اسلامی دنیا کشنر کے ’کزنز پالیٹکس بیانیہ‘ سے متاثر ہو کر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ان کی ہمنوا بن جاتی۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
امریکی سفارت کاری کے جلو میں ان دنوں بھی اسرائیل نواز حلقے اندرون اور بیرون ملک صہیونی ریاست کے بزعم خود ترجمان بن کر داخلی بحرانوں میں گھرے بن یامین نتن یاہو اور ان کی انتہائی انتہا پسند حکومت کی ڈوبتی نیا کو بچانے کے لیے سرگرم ہیں۔ قومی سکیورٹی کے خود ساختہ حاشیہ بردار مٹھی بھر پیرا شوٹر صحافی پاکستانی نژاد امریکیوں کی انجمنوں کو ڈھال بنا کر فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کرانے میں اپنی جان کھپا رہے ہیں۔
دوسری جانب چینی میزبانی میں ریاض اور تہران کے درمیان سفارتی رابطوں سے متعلق معاہدوں پر امریکہ کی بے تابی بھی دیدنی ہے۔ یکے بعد دیگرے امریکہ کے اعلیٰ سفارتی اور انٹیلی جنس حکام کی جانب سے مملکت کے دورے اس بے چینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کروانے سے متعلق کسی بھی مہم کا منتہیٰ اور مقصود ہمیشہ سعودی عرب اور پاکستان رہے ہیں۔ خطے میں امریکی سیاسی اور سفارتی شخصیات کے خفیہ اور علانیہ دوروں کا بھی یہی مقصد دکھائی دیتا ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل
تل ابیب سے تعلقات کے بارے میں سعودی عرب کا نقطہ نظر دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں، تاہم اس کے باوجود مملکت تاحال رسمی طور پر ابراہام معاہدوں سے باہر ہے۔ نتن یاہو گذشتہ برس نومبر میں اس امر کا بذات خود اعتراف کر چکے ہیں ’کہ چھوٹی عرب ریاستوں سے تجارتی اور سفارتی معاہدوں میں سعودی آشیر باد شامل تھی۔‘
ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو بھی ریکارڈ پر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ’سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا عرب اسرائیل تنازع کے خاتمے کی کلید ہے اور یہ اس تنازع کے خاتمے کی جانب ایک ’بڑی چھلانگ‘ کے طور پر کام کرے گا۔‘
سعودی عرب کو اس بات کا مکمل احساس وادراک ہے کہ فی الوقت اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسی ’بڑی چھلانگ‘ فلسطینیوں کو تنہا اور مزید کمزور کرنے کا باعث ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ مملکت نے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف ہونے والی حالیہ اسرائیلی جارحیت پر انتہائی دلیرانہ موقف اپنایا۔
سعودی عرب سمجھتا ہے کہ اندریں حالات ریاض کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کا فیصلہ امریکی قیادت میں ایران کے خلاف کام کرنے والے محور کے ہاتھ مضبوط کرے گا۔ چینی دارلحکومت بیجنگ میں طے پانے والا ایران سعودی عرب معاہدہ کسی بھی ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا جو دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہتری کی راہ میں مزاحم ہو۔
یادش بخیر، سعودی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے گذشتہ برس دسمبر میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے واشنگٹن سے مملکت کی سلامتی سے متعلق امریکی موقف پر نظر ثانی کا پر زور مطالبہ کیا تھا۔
امریکہ کے مؤقر اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے بھی رواں برس مارچ اپنی اشاعت میں خبر دی تھی کہ ’اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کے بارے میں پس پردہ مذاکرات سے متعلق بائیڈن انتظامیہ نے بھی ٹرمپ اینڈ کمپنی کی طرح گرمجوشی دکھائی ہے۔‘
تاہم سعودی عرب نے مبینہ طور پر ’امریکی سکیورٹی کی ضمانت، مزید اسلحہ کی فروخت اور سول جوہری پروگرام میں معاونت‘ کی شکل میں جو بھاری بھرکم مطالبات رکھے تھے، انہیں دیکھنے، سننے اور سمجھنے والا ہر شخص یہی تبصرہ کرتا دکھائی دیا کہ ‘نہ نو من تیل ہو گا، نہ رادھا ناچے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل کے لیے خطرناک پیش رفت
گذشتہ ماہ ہونے والی ایک اہم پیش رفت نے خطے میں سفارتی زلزلہ برپا کیا۔ ایران کے خلاف تل ابیب کی جنونی جنگ میں سعودی تعاون حاصل کرنے کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب چین کی وساطت سے سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے پر بیجنگ میں دستخط ثبت کیے۔
اس معاہدے میں بیجنگ کی ثالثی اسرائیل کے لیے سوہان روح بنی، لیکن امریکی بھی اس پیش رفت کے بعد سے انگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔ چین خطے میں ایسی بڑی سفارتی پیش رفت کا حصہ کبھی نہیں بنا۔ ماضی میں یہ کردار امریکہ یک وتنہا ادا کرتا چلا آیا ہے۔ اب چین نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات میں سہولت کاری کی پیش کش کر کے سفارتی توازن اپنے حق میں کر لیا ہے۔
سابق اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کو ‘اسرائیل کے لیے سنگین خطرناک پیش رفت اور ایران کے لیے اہم سفارتی کامیابی قرار دیا ہے۔‘
تل ابیب میں قائم اسرائیلی خفیہ اداروں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ریٹائرڈ افسران کے نمائندہ تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار نینشل سکیورٹی سٹڈیز نے ایران سعودی معاہدے پر اپنے نوحہ میں لکھا ‘کہ اسرائیل، عرب دنیا میں قبولیت کی دہلیز پر کھڑا تھا، لیکن تہران ۔ ریاض معاہدے نے صہیونی ریاست کو ایک مرتبہ پھر اپنی منزل سے دور کر دیا۔‘
تہران ریاض سفارتی قرابت کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کو ریاض بلا بھیجا تاکہ سعودی اقدام سے پہنچنے والے نقصان کی حدت کا اندازہ کیا جا سکے۔ انٹیلی جنس کے اعلیٰ امریکی عہدیدار کو ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے جھڑکی کے انداز میں منفی جواب نے سبھی کو حیران کر دیا۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق اپیلوں سمیت سعودی عرب نے تیل کی قیمتیں نیچے لانے کی خاطر اس کی پیداوار میں کمی کے امریکی مطالبات بھی مسترد کر دے۔ ایسا لگتا ہے کہ تیل کی منڈی اور خلیج عرب سے متعلق فیصلے اب واشنگٹن کے اختیار میں نہیں رہے۔ اچھا لگے یا برا، مشرق وسطیٰ میں امریکی چوھدراہٹ کا دور اب لد چکا ہے۔
چین کا عالمی سطح پر نمایاں کردار اور ماسکو ۔ بیجنگ گہرا دوستانہ ایسے عوامل ہیں جنہوں نے مشرق وسطیٰ میں امریکی رسوخ کو گہنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش امریکی فوجی اور سفارتی غلبے سے عبارت ‘نیو ورلڈ آڈر‘‘ کے رہتی دنیا تک راج کی بڑھکیں مارا کرتے تھے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق میں جنگی میدان سجانے والے نیو کنزرویٹو تو اسی خمار میں آج بھی خوار دکھائی دیتے ہیں۔
ناقابل اعتبار اتحادی
امریکی قیادت اور ان کے نیو کنزرویٹو حواریوں کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ 2003 کو عراق پر امریکہ کی مجرمانہ اور تباہ کن جارحیت بھی واشنگٹن کے رسوخ کو دوام بخشنے میں ناکام رہی، بلکہ یہ جنگ الٹا نیو کنزرویٹو کے ایک ہدف ایران کی مضبوطی کا باعث بنی۔
آج عراق میں، امریکی کمپنیوں کی جگہ، چینی کارپوریشنز تعمیر نو کے کاموں میں شریک ہیں۔ چین کی ماہرانہ ثالثی کے نتیجے میں دونوں ملکوں (ایران سعودی عرب) کے درمیان از سر نو بڑھنے والی قرابت نے یمن میں جنگ کے خاتمے کے امکانات روشن کیے ہیں۔
بشار الاسد کی سربراہی میں شام کو عرب لیگ سے بیدخل کرنے والے حلقے آج ایران اور سعودی عرب کی قرابت کے بعد دمشق کو عرب لیگ سمیت دوسری نمائندہ فورمز میں خوش آمدید کہتے دکھائی دے رہے ہیں۔
فاصلے سمٹنے لگے
اس پورے منظر نامے کا بنظر غائر جائزہ لینے والا کوئی بھی ذی ہوش سعودی عرب کو اس بات کا دوش نہیں دے سکتا کہ وہ امریکہ پر انحصار کی پالیسی پر تین حرف کیوں بھیج رہا ہے؟ ایسا تعلق جس کی شروعات 1945 میں ہوئی اور یہ رابطہ یک قطبی دنیا میں سرد جنگ کے خاتمے اور بعد میں 1990۔91 خلیج کی جنگ تک جاری رہا۔
کثیر قطبی دنیا میں سعودی عرب کے پاس ایک سے زیادہ راستے اور آپشنز موجود ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان ان پر چلنا بھی چاہتے ہیں۔ واشنگٹن، ریاض سے 7000 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ امریکہ کی غیر یقینی سمیاب صفت پالیسیاں اتحادیوں سمیت سعودی قیادت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں۔
تہران اگرچہ یمن کی طرح سعودی عرب کا گھر آنگن نہیں، تاہم یہاں ریاض ۔ تہران معاہدے کی سائیڈ لائنز پر ہونے والی ایرانی وزیر خارجہ کی اپنے سعودی ہم منصب سے ہونے والی گفتگو کا حوالہ بر محل معلوم ہوتا ہے۔ جب ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ‘کہ ہم نے چین آنے کے لیے لمبا سفر کیا،‘‘ تو اس کے جواب میں سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان بولے ‘حالانکہ تہران سے ریاض کی پرواز صرف دو گھنٹے کی ہے۔‘‘ ایران بھی یوریشیئن براعظم کا مکین ہے، جہاں روس اور چین پائے جاتے ہیں۔
بڑھتے ہوئے اقتصادی روابط اس حقیقت کے غماز ہیں کہ چین، اب سعودی عرب کا سرکردہ تجارتی پارٹنر ہے۔ مملکت کی سلامتی اس کے قریب رہنے والوں سے اچھے تعلقات اور تجارتی روابط سے یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
تلخ حقائق، خوش گوار پہلو
یہ بات اپنی جگہ اطمینان کا باعث ہے کہ دمشق کی عرب لیگ میں واپسی کے لیے مذاکرات کی میز سعودی عرب کی میزبانی میں سجی نظر آ رہی ہے۔
مسجد حرام کے اندر سفید احرام میں لپٹے حماس کے قائدین کا مملکت کے خصوصی مہمان کے طور پر طواف اور عمرہ بھی ہوا کا نیا رخ متعین کر رہا ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے والے بے ثمر حق نمک ادا کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے کثیر الاشاعت ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق کئی برسوں کی لاتعلقی کے بعد سامنے آنے والی امید افزا نئی صورت حال نے ’سعودی عرب کے اسرائیل سے روابط کی امید اور زیادہ کم کر دی ہے۔‘
واشنگٹن کے جنگ پسند نیو کنزرویٹو کا یہ قول بھی تاریخی حقیقت کا درجہ رکھتا ہے کہ’سعودی عرب اب دوسروں پر تکیہ کرنے والا ملک نہیں رہا، جو امریکہ کی ہر بات پر امنا و صدقنا کہتے ہوئے مشرف بہ امریکہ ہو جائے۔‘
اسرائیلی واہمے
امریکی ایوانوں میں سعودی عرب کی لٹیا ڈبونے والے گراہم لنڈسے ہوں یا پھر سی آئی اے چیف ولیم برنز سب اسرائیل کے واہمے فروخت کرنے نکلے ہیں۔
سعودی عرب کی اسرائیل سے ’امن‘ میں دلچسپی اس وقت تو ہو سکتی تھی جب ریاض کمزور تھا، اسے امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت تھی۔ اب سعودی عرب ہمہ قطبی پالیسی پر عمل پیرا ہے، ایسے میں صہیونی ریاست سے نارملائزیشن کی کیا جلدی ہے؟
تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجیے۔ اسرائیل، سعودی عرب کو کیا دے سکتا ہے؟ جاسوسی کے لیے جدید ٹیکنالوجی۔ ممکنہ طور پر یہ ٹیکنالوجی شاید کچھ ملکوں کے لیے نعمت غیر مترکبہ ہو، تاہم سعودی عرب کی نظر میں یہ کوئی ناپید چیز نہیں۔
اس کے کم خرچ اور بالا نشین ایڈیشن چین سے بآسانی یوان کے بدلے خریدے جا سکتے ہیں۔ اسرائیل ایک ننھی سی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا مالک ضرور ہے، لیکن سعودی عرب کی طرح توانائی کے وسائل پیدا کرنے والا بڑا ملک ہر گز نہیں۔
صہیونی دہشت گردی کی کوکھ سے جنم لینے والے اسرائیل کی بین الاقوامی قانون میں شناخت ایک قابض اور غاصب کی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ صدیوں برس پر محیط تاریخ کی حامل ارض فلسطین پر بسایا گیا یہ ایک ایسا ناسور ہے جسے آج اپنی شناخت کے لیے کبھی خود کو فلسطینی فلافل سینڈوچ کا موجد ہونے کا جھوٹا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کبھی اسرائیل کی شاہراؤں اور شہروں کے ناموں کو عبرانی میں تبدیل کر کے اپنے ناجائز وجود کے لیے جواز تراشنا پڑتا ہے۔
اسرائیل درحقیقت مغربی استعمار کا ایک زہریلا نو آبادیاتی منصوبہ ہے جو ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مزید انتہا پسند اور خوفناک بنتا جا رہا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ واشنگٹن سے دیوالیہ پن کے اعلانات سن کر خوشحال مستبقل کے متلاشی یہودی آباد کار سستی ایئر لائنز کے دفتروں کے باہر لمبی قطار میں کھڑے ہو کر اپنے اصل ملک واپسی کے ٹکٹ خریدتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی ریاست کو کوئی احمق ہی تسلیم کرنے کے لیے بے چین ہو سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔