اسرائیل کے معروف کالم نگار افرایئم غانور نے صہیونی ریاست کو درپیش موجودہ صورت حال کا 1967 کی عرب ۔ اسرائیل جنگ سے پہلے کے حالات کے ساتھ موازنہ کیا ہے تاکہ وہ تل ابیب کو ’مزاحم جنگ‘ چھیڑنے کے لیے قائل کر سکیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
مجوزہ ’مزاحم جنگ‘ کا مقصد اس مرتبہ مزید عرب علاقوں پر قبضہ جمانا نہیں، بلکہ ایران اور خطے میں اس کے ہمنواؤں اور دست وبازو بننے والے حلقوں کو کاری ضرب لگا کر چھٹی کا دودھ یاد دلانا ہے۔
فاضل کالم نگار اسرائیل سے شائع ہونے والے عبرانی اخبار ’معاریف‘ چھپنے والے اپنے کالم میں 1967 کے اوائل اور موجود حالات کے درمیان مماثلت تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اسرائیل کو 1967 کی جنگ سے پہلے دگرگوں معاشی صورت حال کا سامنا تھا۔
اس کی وجہ سے صہیونی ریاست میں بے چینی، بے روزگاری اور دنیا بھر سے خوش حال مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے اسرائیل ہجرت کرنے والے آبادکاروں کی اپنے اپنے ملکوں کو ہجرت معکوس عروج پر تھی۔
یہ صورت حال اس نہج کو پہنچ چکی تھی کہ اسرائیل کے شہر اللد کے ہوائی اڈے پر آویزان ایک بینر پر یہ تحریر صورت حال کی حقیقی غمازی کے لیے کافی تھی: ’آخری مسافر لاؤنج کی بیتاں گل کر کے جائے۔‘
یادش بخیر! ان دنوں جمال عبدالناصر یمن سے نکل کر اسرائیل کے خلاف مہم جوئی کی قیادت کر رہے تھے اور شامی فوج گولان کے علاقے میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے الحولہ کے میدانوں پر بم باری کر رہی تھی تاکہ اردن کے پانی کا رخ موڑنے کے اسرائیلی منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے۔
دریائے اردن کا پانی کل بھی اسرائیل کے لیے اہم تھا اور آج بھی یہ تل ابیب کے لیے زندگی وموت کی حیثیت رکھتا ہے۔
1967 میں اسرائیل اپنے قیام کی دو دہائیوں بعد خود کو اردگرد ملکوں کے حصار میں تنہا محسوس کر رہا تھا۔ عالمی سطح پر بھی اسرائیل کو کسی مختلف صورت حال کا سامنا نہ تھا۔
صہیونی ریاست کے فرانس کے ساتھ تعلقات بہتری کی نہج پر نہ تھے اور اس کا سرپرست امریکہ ویتنام کی جنگ میں غرقاب تھا۔
اسرائیل نے ایک پیشگی (pre-emptive) جنگ چھیڑ کر عربوں کو ایسی شکست سے دوچار کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
گولان کی چوٹیاں، غرب اردن، غزہ کی پٹی اور مصر میں سینا کا علاقہ سب اسرائیل کے زیر نگیں چلے گئے۔
مصر کو صحرائے سینا کا علاقہ اسرائیلی قبضے کے 10 برس بعد کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کے بعد واپس ملا۔
اسرائیل کو 56 برس قبل جن حالات اور خطرات کا سامنا کر رہا تھا، شومئی قسمت علاقائی اور عالمی صورت حال میں بہتری کے باوجود تل ابیب کو بعینہ ویسے ہی حالات کا سامنا ہے۔
اس کی وجہ اسرائیل کا سر تا پا یہودی آبادکاری سے متعلق اپنی قابض پالیسیوں پر عمل، فلسطینیوں کے خلاف مظالم اور قضیہ فلسطین کا بین الاقوامی قراردادوں کی روشنی میں حل سے منہ موڑنا ہے۔
عالمی اداروں کی قراردادیں مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کے انخلا کا تقاضہ کرتی ہیں۔
لیکن اسرائیل، عرب اور بین الاقوامی دنیا کے حمایت یافتہ دو ریاستی اصول کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل سے مسلسل انکاری ہے۔
اپنے قیام کے 75 برس بعد بھی اسرائیل عربوں اور فلسطینیوں کے قومی مفادات کے برعکس پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔
اپنی معاندانہ روش کو روبعمل لاتے ہوئے اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو ہر پلیٹ فارم پر بے وقعت کیا۔
فلسطینی اتھارٹی کا بت خود معاہدہ اوسلو میں صہیونی کار پردازوں نے تراشتہ تھا۔
لیکن آج بھی یہودی آبادکاری اور غرب اردن میں مظالم اسرائیل کی روزمرہ پالیسی کا اہم ستون چلے آ رہے ہیں۔
اس پالیسی کا فطری ردعمل مزاحمت کی صورت میں سامنے آیا۔ مزاحمت کاروں کی دلیرانہ کارروائیوں سے خطے میں بین الاقوامی مداخلت کے خدشات آج کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
اسرائیلی قیادت فلسطینیوں کی غصب شدہ زمین پر قائم غیر قانونی قطعہ اراضی کو یہودی ریاست قرار دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگی۔
اس مقصد کے لیے یہودی آبادکاری کو ایک ایسے ٹول کے طور پر استعمال کیا جانے لگا جسے ٹھنڈے پیٹوں برادشت کرنے کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی خود اپنے ہی عوام کی نظروں میں گر گئی۔
موجودہ نتن یاہو حکومت نے مستقبل کی جنگ کا نقشہ بدلنے کی خاطر عدلیہ کا گلہ گھونٹنے جیسے اقدامات شروع کر دیے۔
خطے میں فروغ پانے والی قومی شناخت کی سوچ کے مقابلے میں فلسطینیوں کے سامنے یہودی مذہب کا بیانیہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا۔
ایسے میں تحریک آزادی فلسطین (فتح) اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین سمیت آزادی فلسطین کی عرب شناخت کی بنیاد پر جدوجہد کرنے والی آزادی تحریکیں دم توڑنے لگیں اور ان کے مقابلے میں ’حماس‘ اور ’اسلامی جہاد‘ جیسی اسلامی مزاحمت کی تحریکیں جدوجہد آزادی فلسطین میں نمایاں ہو کر سامنے آئیں۔
ان دونوں مزاحمتی تحریکوں کے جلو میں غیر ملکی حزب اللہ اور ان کی ہم خیال دوسری تنظیموں کو مداخلت کا موقع ملا، جس سے عرب قومیت کی بنیاد پر آزادی فلسطین کی جدوجہد ایک مذہبی اور دینی معرکے کا روپ اختیار کرنے لگی۔
فلسطین کے قومی کاز کو گزند پہنچانے والے خفیہ منصوبے کو انتہائی چالاکی سے روبعمل لایا گیا۔
اس منصوبے نے فلسطین میں فرقہ وارایت کو ہوا دی۔ 80 کی دہائی سے اسرائیل پر یہی الزام عاید کیا جاتا رہا ہے۔
مغربی دنیا کو بھی اسی وجہ سے دوش دیا جاتا ہے کہ انہوں نے آزادی اور قومی نشاہ ثانیہ کی لہر کو روکنے کے لیے گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں اسلامی تنظیموں کی سرپرستی کی۔
ایران نے اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لیے ایک نئی اسلامی تحریک مزاحمت شروع کی، جو خالص ایرانی منصوبہ تھا۔
اسرائیل سے متعلق ایران کی پالیسی سمجھ میں نہ آنے والا معمہ ہے۔ گذشتہ 40 برسوں سے’اسرائیل مردہ باد‘ ایسے ایرانی نعرہ مستانہ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
مگر کمال حیرت ہے کہ اس نعرے کی بازگشت ایران کو دشمن ملک عراق کے خلاف جنگ میں اپنے جانی دشمن اسرائیل سے ’ایران کونٹرا‘ نامی ڈیل کی آڑ میں امداد لینے سے نہ روک سکی۔
ادھر یہ شرم ناک حقیقت بھی ولایت فقیہ کا منہ چڑا رہی ہے کہ ایران کی مزعومہ انقلابی تاریخ میں ایک مرتبہ بھی تہران کو اسرائیل پر براہ راست حملے کی جرات نہ ہوئی۔
خود ایرانی سرزمین میں عیش وآرام کی زندگی گذارنے والی داعش کی قیادت نے ایک دن بھی کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے اسرائیل کی نیند حرام ہونے کا امکان پیدا ہوا ہو، جبکہ یہی داعش آئے روز عرب ملکوں سمیت دنیا کا امن تاراج کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
ایران نے فلسطینی بیانیہ کو قومی مذہبی نعروں کی آڑ میں بلاد الشام (لیوانٹ) میں پھیلایا۔ اس کی پروردہ تنظیموں نے آزادی فلسطین کا نعرہ بلند کیا۔
تاہم جن ملکوں کو آزادی فلسطین کا میدان بنایا گیا، ان کی جڑیں کھوکھلی کی جاتی رہیں اور پھر آگے چل کر بغداد سے بیروت تک آزادی فلسطین کے ’نیک مقصد‘ کی خاطر انہی تنظیموں نے میزبان ملکوں کو اپنا پایہ تخت بنا لیا، جس کے نتائج وہاں کے عوام آج بھی بھگت رہے ہیں۔
چند دن پہلے گذرنے والے رمضان کے موقعے پر ایرانی قیادت نے القدس اور مسجد اقصیٰ کے بینر تلے لبنان، شام، اردن اور فلسطین کی مزاحمتی سوچ کے نمائندہ گروپوں کا ایک مشترکہ آپریشن روم بنایا، جس کے ذریعے لبنان سے 34 راکٹ اسرائیل پر اس وقت فائر کیے گئے جب مسجد اقصیٰ میں کشیدگی عروج پر تھی۔
اس مشترکہ آپریشن روم کا مقصد ایران کے بہ قول ’علاقائی تعلقات میں بہتری لانا تھا تاکہ عرب اور اسلامی دنیا کو اس مسئلے کے گرد جمع کیا جا سکے اور تنیجتاً اسرائیل کے خلاف مقابلے میں ایران کو اسلامی اور عرب دنیا کی قیادت کا موقع مل سکے۔‘
علاقائی مزاحمتی قوتوں کے اکٹھ اور مشترکہ آپریشنل روم سے چھن کر آنے والی کامیابی کی کرنوں نے ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی کو مزید شیخیاں بگھارنے کا حوصلہ دیا۔
انہوں نے تمام کارروائیوں کی ذمہ دار قبول کرنے کا دعوی کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل کو آج شام، لبنان، غزہ سے راکٹ حملوں اور غرب اردن میں پکنے والے لاوہ کا سامنا ہے۔‘
انہوں نے ایران کے یوم فوج (18 اپریل) کی مناسبت سے ایک چشم کشا انکشاف کیا کہ غرب اردن میں اسلحہ غیبی امداد سے پہنچا، اسرائیلیوں نے شام میں ہمارے دو لوگ قتل کیے جبکہ غیبی ہاتھوں نے غرب اردن میں سات یہودی تہ تیغ کیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاسداران انقلاب کے کمانڈر کا واشگاف اور فخریہ انداز میں صرف یہ اعلان ہی باقی رہ گیا تھا کہ ’مقبوضہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، ایران ہی کروا رہا ہے۔‘
اسرائیل کو بھی ایران کا پیغام سمجھنے میں دیر نہیں لگی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع یوؤو گیلانٹ نے بیان دیا ’محدود پیمانے پر معرکہ آرائی کا دور لد چکا، ہمارے سامنے نیا سکیورٹی منظر نامہ ہے جس میں اسرائیل کو کئی محاذوں سے حقیقی دھمکیوں کا سامنا ہے۔‘
گیلانٹ نے ایران پر الزام لگایا کہ ’تہران اپنے ایجنٹوں کو مادی اور معنوی تربیت فراہم کر رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایران اپنے جوہری عسکری ہتھیاروں کی تیاری کے قریب پہنچ چکا ہے، اس کا تدارک دو طرح سے ممکن ہو سکتا ہے، فوجی کارروائی یا کریڈیبل عسکری دھمکی۔‘
اسرائیلی کالم نگار غانور کئی برس پہلے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے سے متعلق اسرائیلی دھمکی کے ناقد رہے ہیں۔
ان کے تجزیوں کو عربی میں نشریات پیش کرنے والے ایران کے ’العالم‘ ٹی وی میں نمایاں جگہ دی جاتی تھی، مگر آج وہ بھی کئی اسرائیلی سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی طرح ایران پر انگشت نمائی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایران بھی ایسے تجزیہ کاروں پر تنقید میں کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ بھی فلسطینیوں کے حقوق پامال کرنے پر اسرائیل کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔
نیتن یاہو اور امریکی انتظامیہ کے درمیان کشیدہ تعلقات اور اسرائیلی معاشرے کی تقسیم نے ایرانی تجزیہ کاروں کا کام مزید آسان کر دیا ہے۔
ساز گار حالات میں ہم خیال علاقائی طاقتوں کی قوت کو مجتمع کرنے کا آئیڈیا اور سرحد پار مار کرنے والے میزائلوں کی بات بھلی معلوم ہوتی ہے۔
ایسے میں ایرانی مرشد اعلیٰ علی خامنہ ای کے آئندہ 25 برسوں میں اسرائیل کی تباہی کی پیش گوئی، صدر ابراہیم ریئسی کے حیفا اور تل ابیب کو صفحہ ہستی سے سات منٹ کے اندر مٹانے جیسے بیانات کانوں میں رس گھولنے کے لیے کافی ہیں۔
اسرائیلی بیانیہ میں ایرانی دھمکیوں کی بازگشت دوبارہ سنائی دے رہی ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو متنبہ کر رہے ہیں۔
دونوں ہی ایک دوسرے کو محدود پیمانے پر نقصان پہنچانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے، دونوں کے درمیان جنگ ناگزیر ہے، کب اور کیسے؟
کالم نگار غانور کے بہ قول ’اسرائیلی نقشے پر وارننگ کے تمام نشان روشن ہو چکے ہیں، جن کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں۔
’اسرائیلی ریاست کو چاہیئے کہ وہ فورا ایک سمارٹ مزاحمتی جنگ کا طبل بجاتے ہوئے لبنان میں حزب اللہ کے میزائلوں کے گودام تباہ کرے تاکہ ایرانی اژدھے کا سر کچلا جا سکے، اور ایک ہی آن میں حماس اور جہاد اسلامی کو بھی خبر ہو جائے۔‘
ایران اور اسرائیل کے درمیان محاذ آرائی اب بنایات کی حد پار کر چکی ہے اور مکمل جنگ ایجنڈے کا حصہ بن چکی ہے؟
کیا متوقع تباہی سے راہ فرار ممکن ہے؟ کیا دوسرے علاقائی اور بین الاقوامی عوامل اسے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے؟
ان سوالوں کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔