سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بدھ کو پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا استعمال روکنے کے لیے قانون سازی کی ہدایت کی ہے۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کمیٹی کو بتایا کہ کرپٹوکرنسی پر پابندی کے لیے قانون سازی عمل میں لائی جائے گی۔
اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ سٹیٹ بینک اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) نے ملک میں کرپٹو کرنسی بند کرنے پر کام شروع کر دیا۔
ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو کبھی بھی قانونی قرار نہیں دیا جائے گا۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیجیٹل سٹیٹ بینک سہیل جبار نے کمیٹی کو بتایا کہ کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ 2.8 کھرب ڈالر سے کم ہو کر 1.2 کھرب ڈالر رہ گئی ہے۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ کرپٹو کرنسی ٹوٹل فراڈ ہے، جس کی پاکستان میں کبھی اجازت نہیں دی جائے گی اور یہ کہ کرپٹو کرنسی میں پاکستانی انویسٹ پر ایف آئی اے اور ایف ایم یو کارروائی کر رہا ہے، کرپٹو کرنسی کی 16 ہزار سے زائد اقسام بن چکی ہیں، چین نے بھی کرپٹو پر پابندی عائد کی ہے۔
چیئرمین ایس ای سی پی عاکف سعید نے بتایا کہ 2017 میں بینکوں کو کرپٹو میں انوسٹ کرنے سے روکا گیا تھا۔
’کرپٹو ایک ہائی رسک ایسٹ ہے جس کا کسی کو کوئی فائدہ نہں ہوتا، بڑے ممالک اب کرپٹو کو ختم کر رہے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ کرپٹو کرنسی پر پابندی لگائی جائے۔‘
چئیرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا پاکستان کے اربوں ڈالر کرپٹو کرنسی میں انویسٹ ہوئے ہیں، جس پر ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے جواب دیا کہ ایف اے ٹی ایف نے بھی اس حوالے سے شرائط عائد کی ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق: ’کرپٹو کرنسی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کرپٹو کرنسی میں ہم ڈیل نہیں کر سکتے۔ ابھی ہم ایف اے ٹی ایف سے باہر آئے ہیں، یہ ایسا ایریا ہے جس سے ہمیں بچ کر چلنا چاہیے۔‘
کمیٹی رکن اور پی پی پی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا اس معاملے پر تو بات ہی نہیں کرنی چاہیے، جو پاکستانی کرپٹو کرنسی میں کام کر رہے ہیں ان کو سزا ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرپٹو کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے۔
’کرپٹو کے ذریعے فنانشل دہشت گردی بھی ہو سکتی ہے، پہلے ہی ہمیں آئی ایم ایف ڈیل نہیں مل رہی، ان کو ہمارے خلاف ذرا سا بہانہ چاہیے۔‘
کمیٹی میں ایس ای سی پی نے فیس میں 350 فیصد اضافے کے معاملے پر بتایا کہ یہ فیس نان بینکنگ فنانس کمپنیوں اور نوٹیفائیڈ ریگولیشنز میں ترمیم کے ذریعے وصول کی جا رہی ہے۔
چیئرمین ایس ای سی پی عاکف سعید نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 2019 میں فیسوں میں کی گئی کمی کو دوبارہ بحال کر دیا ہے۔
’ان میں اضافہ نہ کیا جاتا تو ہمیں نقصان کا سامنا تھا۔ ایس ای سی پی ایک خود مختار ادارہ ہے، 20 سال سے حکومت سے پیسے نہیں لیے۔ فیس نہ بڑھاتے تو حکومت کو فنڈز کے لیے خط لکھ رہے ہوتے۔‘
کمیٹی نے اس معاملے پر ایس ای سی پی سے کمپنیوں کی رجسٹریشن کا فیس سٹرکچر طلب کر لیا۔
بجٹ 24-2023
ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کمیٹی کو بتایا کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔
’ٹیکس ٹو گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی) میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے، کوشش ہے عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہو۔
’فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نئے بجٹ میں ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح بڑھائے گا، جو شعبے ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں، انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ڈبل ڈیجٹ سے بھی کم ہونے کی وجہ سے مالی خسارہ بڑھتا ہے اور قرضے لینے پڑتے ہیں۔
’ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے مہنگائی سمیت منفی اثرات سامنے آتے ہیں، کوشش ہے تمام طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔‘
چئیرمین ایف بی آر عاصم احمد نے کمیٹی کو کیپٹل ویلیو ٹیکس پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس مالی سال کیپٹل ویلیو ٹیکس کی مد میں نو ارب روپے وصول کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیٹی کی جانب سے مقامی اور غیر ملکی اثاثوں پر کیپٹل ویلیو ٹیکس کے نفاذ پر تحفظات کا اظہار کیے جانے پر چئیرمین ایف بی آر نے کہا کہ اس کا مقصد زیادہ کمانے یا اثاثے رکھنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے، اس حوالے سے ہائی کورٹس نے بھی ایف بی آر کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔
’بیرون ملک اثاثے رکھنے والے نئے لوگوں کی بھی رجسٹریشن کر رہے ہیں، پہلے سے رجسٹرڈ افراد کی بینک اور پراپرٹی کی معلومات دستیاب ہیں۔‘
بعد ازاں ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام جاری رکھنا چاہتا ہے۔
’پوری کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے۔ ہم نے آئی ایم ایف پروگرام میں رہ کر سیاسی قیمت ادا کی ہے، آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں اور اس حوالے سے ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔‘
بجٹ پر بات کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ نئے بجٹ 2023 سے 2024 کی تیاری چل رہی ہے، مشکل معاشی حالات میں بھی عوام کو ریلیف دینے کی پوری کوشش کریں گے۔
’بجٹ نمبرز کو حتمی شکل دے رہے ہیں، جون کے پہلے ہفتے میں بجٹ پیش کیا جائے گا۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا ملک کی ضرورت ہے۔‘
عائشہ غوث پاشا نے کہا اسمگلنگ پر قابو پا کر ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے گا، اس ضمن میں پالیسی سطح پر کام کیا جا رہا ہے، بجٹ خسارے پر قابو پانا ہی عوام کے لیے بڑا ریلیف ہوگا۔