پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے لیے قانونی فریم ورک بنوانے اور اس میں تجارت کو لیگل بنانے کے لیے سرگرم ٹی وی میزبان وقار ذکا نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انہوں نے نجی نیوز چینل ’دنیا نیوز‘ پر ایک ارب روپے کا نوٹس بھجوایا ہے۔
ٹویٹ کے مطابق دنیا نیوز نے دعویٰ کیا تھا کہ وقار کو کرپٹو کرنسی کو پروموٹ کرنے پر گرفتار کیا جائے۔
Yesterday @DunyaNews claimed that Waqar Zaka should be arrested for promoting Crypto - Legal Notice issued to @DunyaNews for their fake bogus story against me . Any news platform posting incorrect information or defaming words will face the Court pic.twitter.com/lWRdmnS0lU
— Waqar Zaka (@ZakaWaqar) January 19, 2022
وقار ذکا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دنیا نیوز اور امت اخبار نے من گھڑٹ خبر چلائی کہ وقار ذکا تین سال سے منی لانڈرنگ کر رہے ہیں، ادارے انہیں گرفتار نہیں کر رہے۔ اس لیے انہیں ایک ارب روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس بھجوا دیا ہے۔ اب ان کے خلاف عدالت سے رجوع کروں گا کہ وہ ثابت کریں کہ میں نے کیسے منی لانڈرنگ کی؟‘
ان کے مطابق وہ ہر سال 20، 22 لاکھ روپے ٹیکس میں ادا کرتے ہیں۔ ’ساری دولت قانونی اور ظاہر شدہ ہے، تو بتائیں کیسے منی لانڈرنگ کی؟‘
کرپٹو کرنسی تنازع ہے کیا؟
سٹیٹ بیک آف پاکستان نے 2018 میں بینکوں کو ایڈوائس دی تھی کہ کرپٹو کرنسی اور اس کے ایکسچینز سے ٹرانزیکشن نہ کی جائیں۔
تاہم کرپٹو کرنسی کے حوالے سے پاکستانی صارفین کے ساتھ کروڑوں روپے کے فراڈ کے کیس سمانے آنے کے بعد اب مرکزی بینک اور حکومت اس پر مکمل پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔
وقاز ذکا نے کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دلوانے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں 2019 سے کیس دائر کر رکھا ہے۔
عدالت نے اکتوبر 2021 میں حکومت کو تین ماہ میں کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کرنے کی پالیسی تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس پر رپورٹ پیش کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کی نائب گونر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تھی۔
سما نیوز کے مطابق اس کمیٹی نے 12 جنوری کو اپنی رپورٹ پیش کی کہ کرپٹو کرنسی کو غیر قانونی قرار دے دیا جانا چاہیے اور ملک میں اس میں تجارت پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔
تاہم عدالت نے مکمل پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے رپورٹ وزارت خزانہ اور وزارت قانون کو بھیجنے کی ہدایت کی۔
ڈان نیوز کے مطابق رواں ماہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ادارہ کرپٹو کرنسی کی ویب سائٹس کو بند کرنے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیش اتھارٹی (پی ٹی اے) سے رابطہ کرے گا تاکہ فراڈ اور ممکنہ منی لانڈرنگ کو روکا جا سکے۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کہہ چکے ہیں کہ حکومت کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے۔
’کرپٹو کرنسی پر پابندی سے ڈیجیٹل خلا نہیں ہوگی‘
کرپٹو کرنسی کے استعمال کے حامی وقار ذکا نے بتایا کہ صدر پاکستان عارف علوی متعدد بار پاکستان میں بلاک چین ٹیکنالوجی بنانے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں، مگر دوسری جانب حکومت کہتی ہے کہ کرپٹو کرنسی نہیں چلنے دیں گے۔
’کرپٹو کرنسی نہیں ہوگی تو بلاک چین کیسے چلائیں گے؟ اگر بلاک چین گاڑی ہے تو اس میں جو پیٹرول ڈلنا ہے وہ کرپٹو کرنسی ہے۔ بغیر کرپٹو کرنسی کے بلاک چین کیسے چلائیں گے؟‘
وقار ذکا کے بقول فیس بک کے ورچوئل پلیٹ فارم میٹا ورس اور این ایف ٹی (نان فنجیبل ٹوکن یعنی ڈیجیٹل آرٹ جو صرف آن لائن ہی ہوتا ہے) کو استعمال کرنے کے لیے ڈیجیٹل سپیس ہونی چاہیے اور کرپٹو کرنسی پر پابندی سے یہ خلا نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ این ایف ٹی دنیا بھر میں لاکھوں میں فروخت کیے جاتے ہیں اور سوال اٹھایا کہ پاکستانی آرٹسٹ اور نوجوان جو اپنے این ایف ٹی فروخت کرنا چاہتے ہیں وہ کرپٹوکرنسی پر پابندی کی صورت میں اس سے پیسے کیسے کمائیں گے؟
انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان انہیں سات منٹ دے دیں تو وہ کرپٹو کرنسی کا پورا نظام انہیں سمجھا دیں گے اور پاکستان کا قرض اتارنے کا فارمولا دے سکتے ہیں۔
وقار ذکا نے دعویٰ کیا: ’مجھے 10 جنوری کو ایک نجی نمبر سے آنے والی کال میں کہا گیا کہ عدالت میں جو سٹیٹ بینک کہے اس کی حمایت کریں۔
’12 جنوری کو عدالت میں جب سٹیٹ بینک نے کہا کہ ہم کرپٹو کرنسی پر پابندی لگانا چاہتے ہیں تو میں نے جواب دیا یہ تو آرٹیکل 18کی خلاف ورزی ہے۔
’اس پر جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ سو فیصد کیسے بند کر سکتے ہیں تین ماہ میں واضع پالیسی بنا کر لائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے اہلکاروں کو کرپٹو کرنسی کی کوئی سمجھ نہیں۔
’ایف آئی اے ایک ڈیمو کر کے دکھائے کہ بائنانس (کرپٹو کرنسی کا ڈیجیٹل ایکسچیج) اور کرپٹو سے فراڈ کیسے ہوتا ہے، تو معلوم ہوجائے گا کہ ایف آئی اے اہلکار کتنے ماہر ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کرپٹو کرنسی چلتی کیسے ہے۔‘
کرپٹو کرنسی پر پابندی پر غور کیوں؟
اس معاملے پر جب ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر آصف اقبال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوگوں کو کرپٹو کرنسی سے کمائی کا لالچ دے کر اربوں کا فراڈ باآسانی کیا جارہا ہے۔
آصف اقبال نے دعویٰ کیا کہ ’ اس فراڈ کی جڑ وقار ذکا ہیں‘ جن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
’جب سٹیٹ بینک کرپٹو کرنسی پر پابندی کی سفارش دے چکا ہے اور عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہے تو فیصلہ آنے تک اس کاروبار سے متعلقہ لوگوں کے خلاف کارروائی کیسے غیر قانونی ہے؟‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹل کرنسی اکاؤنٹ کا اگر پاس ورڈ ہی ہیک ہو جائے تو کروڑوں روپے نکالے جاسکتے ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ فراڈ کرنے والا کون ہے۔ اس لیے اس کاروبار کو بند کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے پاکستانیوں کے 18 ارب روپے سے زائد رقم کرپٹو کرنسی کے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فراڈ میں ہتھیا لی گئی، اب کیونکہ اکاؤنٹس کی جعلی تھے تو مجرموں کو پکڑنا اور بھی مشکل ہے۔
ان سے سوال کیا گیا کہ دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کا کاروبار چل رہا ہے وہاں کیسے فراڈ پکڑا جاتا ہے؟
اس پر آصف اقبال نے کہا: ’منی لانڈرنگ کے چیلنجز صرف پاکستان کو ہیں اسی لیے ملک کا نام ایف اے ٹی ایف میں ہے۔ کرپٹو کرنسی کے ذریعے باآسانی منی لانڈرنگ کی جارہی ہے جس کا سراغ لگانا بھی کئی بار ممکن نہیں ہوتا۔‘
یاد رہے کہ کرپٹو کرنسی میں ہونے والی ہر ٹرانزیکشن بلاک چین ٹیکنالوجی سے منسلک ہوتی ہے اور اس کا ریکارڈ ایک ڈیجیٹل لیجر میں ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بلاک چین ڈیٹا ریکارڈ کرنے کا ایک ایسا نطام ہے جس میں ڈیٹا کو تبدیل کرنا اور اس نظام کو دھھوکا دینا بہت مشکل ہے، کیونکہ ٹرانزیکشن ڈیٹا ایک وقت میں کئی صارفین کے پاس ہوتا ہے۔
ایف آئی اے کے عہدے دار نے مزید کہا کہ کرپٹو کرنسی کا غیر قانونی کاروبار سوشل میڈیا پر لالچ دے کر لوگوں کو پھنسانے کے علاوہ کچھ نہیں۔
’جو اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ اس فراڈ کا حصہ ہیں۔ ہم چھان بین کر رہے ہیں اور اس نیٹ ورک کو منظر عام پر لائیں گے۔‘
آصف اقبال کے مطابق ڈیجیٹل کرپٹو کرنسی کے فراڈ ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ کبھی ایک کوئن 10 ہزار کا ہو جاتا ہے اور کبھی وہی ایک کروڑ تک پہنچ جاتا ہے، اس کے ریٹ کے اتار چڑھاؤ کا کوئی فارمولا نہیں جبکہ فائدہ صرف اس اکاؤنٹ کو ہوتا ہے جو کوئن فروخت کرتا ہے۔
’اس لیے اس قسم کے نیٹ ورک قانونی قرار نہیں دینے چاہییں جن سے متعلق لوگوں کو آگاہی ہی میسر نہیں۔ ہر معاملہ ابہام کا شکار ہے۔‘