جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں 19 مئی کو خود پر ہونے والے خودکش حملے کے حوالے سے کہا ہے کہ انہیں آئیڈیا نہیں کہ یہ کام کس نے کیا ہے، لیکن ابتدائی معلومات کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ یہ باہر کا آدمی نہیں بلکہ پاکستانی تھا۔
بلوچستان کے ضلع ژوب میں 19 مئی کو سراج الحق کے ایک جلسے سے قبل اس وقت خودکش حملہ ہوا تھا، جب امیر جماعت اسلامی جلسے میں شرکت کے لیے مرکزی شاہراہ سے گزر رہے تھے کہ پیدل کارکنان میں شامل ایک حملہ آور نے خود کو اڑا لیا۔
اس دھماکے کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہوئے جبکہ سراج الحق محفوظ رہے۔
امیر جماعت اسلامی نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اس واقعے کے حوالے سے بتایا: ’ہمارا ژوب میں جلسہ تھا اور لوگ استقبال کے لیے نکلے تھے۔ ظاہر ہے ہم عوامی لوگ ہیں، اس لیے عوام میں ہی رہتے ہیں۔‘
دھماکے کی تفصیلات بتاتے ہوئے سراج الحق نے کہا: ’جب لوگ آگے بڑھے تو یہ آدمی (حملہ آور) بھی آگے بڑھا اور اس کے بعد دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے بعد انسانی کپڑوں کے ٹکڑے ہمارے (گاڑی کے) شیشے پر آکر گرے۔ میں نے بائیں طرف دیکھا تو ایک لاش پڑی تھی، جس سے اندازہ ہوا کہ خود کش حملہ ہوا ہے۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’اللہ نے میرے کارکنوں کو اور مجھے بچایا کیونکہ بارود کا ایک حصہ پھٹا تھا، جس سے حملہ آور خود مر گیا، لیکن اس کے ساتھ بارود یا لوہے کے ٹکڑوں کا جو بڑا ذخیرہ تھا، اس تک کرنٹ نہ پہنچ سکا۔‘
امیر جماعت اسلامی کے مطابق: ’ابتدا میں مجھے لگا کہ استقبال کے لیے آنے والوں نے کوئی پٹاخہ استعمال کیا، لیکن جب بارود کی بو پھیل گئی تو اس سے مجھے اندازہ ہوا۔ پھر گاڑی کے شیشے پر انسانی گوشت کے ٹکڑے اور کپڑے گرے تو اس سے اور بھی یقین ہوگیا کہ ہم پر خود کش حملہ ہوا ہے اور اس میں بارود کا استعمال ہوا ہے۔
’اگر وہ سارا بارود پھٹ جاتا تو سینکڑوں لوگ شہید ہوجاتے، اب بھی ہمارے چھ کارکنان زخمی ہیں، لیکن اللہ نے لوگوں کو بچایا۔‘
سراج الحق کا مزید کہنا تھا: ’میری پہلی پیدائش خیبرپختونخوا کے علاقے ضلع چارسدہ میں ہوئی اور اس بار مجھے اللہ کی طرف سے نئی زندگی بلوچستان کے ضلع ژوب میں ملی۔‘
اس حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی، تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
اس حوالے سے سوال پر امیر جماعت اسلامی نے کہا: ’ہم تو عوام ہیں، تحقیقات کرنا حکومت اور ایجنسیوں کا کام ہے، ہمیں اس وقت کوئی آئیڈیا نہیں کہ یہ کام کس نے کیا ہے، البتہ ابتدائی معلومات کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ یہ باہر کا آدمی نہیں تھا، پاکستانی یا بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے۔‘
’نفرتوں کی سیاست‘
حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں مفاہمت کروانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت نہ تو کوئی حکومت ہے، نہ کوئی نظام ہے۔ ملک لاوارث ہے، خاص کر بلوچستان بالکل بارود کا ڈھیر بن گیا ہے۔ یہاں خود حکومت محفوظ نہیں ہے، عوام کو تو رہنے ہی دیں۔ یہ اپنی چھاؤنیوں، تھانوں اور دفاتر کو محفوظ بنالیں۔‘
سراج الحق نے مزید کہا: ’میں نے محسوس کیا کہ رات کے وقت سڑکوں پر بالکل حکومت نہیں ہوتی ہے، جو جہاں جس وقت چاہے ہِٹ کرسکتا ہے۔ حکومت بالکل بے بس ہے، سب ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے ہیں، عوام ہیں کہ بے چارے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔‘
حکمران جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پی ٹی آئی کی سیاسی کمشکش اور کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’پی ڈی ایم، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی سیاست انتقام اور نفرتوں کی سیاست ہے۔ معیشت کی تباہی، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کی سیاست ہے۔ عام آدمی کے لیے اس میں کوئی روشنی نظر نہیں آتی، سوائے تکلیفوں اور بدامنی کے۔‘
’فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں‘
نو مئی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نیب کے ہاتھوں 190 ملین پاؤنڈ کی مبینہ کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ’نومئی کا واقعہ بہت زیادہ افسوس ناک ہے۔ اس میں زیادہ تر سرکاری مکانات اور قومی املاک تباہ ہوئیں۔ ہم اس کی مذمت بھی کرتے ہیں اور جو لوگ بھی جرم میں ملوث ہوں، سیاست سے بالاتر ہوکر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، لیکن ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ نو مئی کو جن لوگوں نے غلط کیا، ان کو چھوڑ کر عام سیاسی ورکر کے خلاف کارروائی کرنا بھی انصاف نہیں ہے۔‘
بقول سراج الحق: ’نو مئی کے واقعات ہوں یا باقی سیاسی کارکنوں کے ساتھ معاملات ہوں، سویلین عدالتوں میں ان کے مقدمات چلائے جائیں۔ اگر عدالت کسی کو مجرم کہے تو بےشک سزا دی جائے، لیکن ٹرانسفارمر جلنے اور خراب ہونے پر جلوس نکالنے والوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات لگانا بھی انصاف پر مبنی نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امیر جماعت اسلامی نے کہا انہوں نے سینیٹ میں ہوتے ہوئے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ملک میں جتنے بڑے واقعات ہوئے ان کے بارے میں ایک ٹروتھ کمیشن بنایا جائے، جو آزادانہ تحقیقات کرکے عوام کو بتائے۔
ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے سوال پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا: ’ہم فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ہیں۔ یہاں سول عدالتیں موجود ہیں، ریگولر قانون ہے، اس کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی عدالت بھی موجود ہے، جسے آئین کا تحفظ بھی حاصل ہے۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے 2015 میں ایک فیصلہ ہوا تھا، جسے اسمبلی نے منظور کیا تھا، لیکن وہ تین سال کے لیے تھا، وہ عرصہ ختم ہوگیا، ایک جمہوری ملک میں فیصلے بھی جمہوری طریقے سے ہونے چاہییں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمارا مشورہ ہے کہ عدالتوں میں کیسز چلائے جائیں۔ فوجی عدالتوں میں کوئی فیصلہ چلے بھی تو لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے، نہ ملک میں اور نہ ملک سے باہر، اس لیے جماعت اسلامی نے ہمیشہ فوجی عدالتوں کی مخالفت کی ہے، کبھی اس کی حمایت نہیں کی۔‘
ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سوال پر سراج الحق کا کہنا تھا: ’ہم نے سپریم کورٹ میں تجویز پیش کی کہ بڑی عید کے بعد جب تمام حجاج کرام واپس آجائیں تو اگست کے مہینے میں انتخابات کروائے جائیں۔ یہ ویسے بھی پاکستان کی آزادی کا مہینہ ہے، اس میں انتخابات ہوجائیں تو ہمیں اس فرسودہ نظام سے بھی نجات مل جائےگی۔‘
ملک میں انتخابات کی شفافیت کے سوال پر سراج الحق نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے ہم یہی کہتے آرہے ہیں کہ وہ غیر جانبدار رہیں لیکن اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، وہ غیر جانبدار نہیں رہے۔ انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے۔‘