پاکستان کے قانون نافذ کرنے اداروں کی جانب سے نو مئی کے واقعات کی تحقیقات روایتی طریقوں کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے جاری ہے۔
نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے، جن کے دوران آرمی تنصیبات پر حملوں کے ساتھ ساتھ دیگر قومی و نجی املاک کو بھی جلایا گیا تھا۔
اس حوالے سے لاہور میں جناح ہاؤس اور عسکری ٹاور، فیصل آباد میں آئی ایس آئی کا آفس، راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور حمزہ کیمپ، میانوالی میں پی اے ایف ایئر بیس اور گجرانوالہ کینٹ حملوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے رابطوں کا ریکارڈ تیار کر کے وزیراعلیٰ پنجاب کو بھجوا دیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو بھیجی گئیں دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ جیو فینسنگ سمیت مختلف طریقوں سے تفتیش کے بعد حملہ آوروں کے تحریک انصاف کے رہنماؤں سے مبینہ رابطوں کے شواہد بھی جمع کر لیے گئے ہیں۔
آئی جی آفس کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، میں مبینہ حملہ آوروں کی شناخت کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جو سفارش کی گئی ہے اس میں عمران خان سمیت کئی اہم رہنماؤں کو نامزد کیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے اس رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جدید ٹیکنالوجی اور روایتی طریقوں سے شواہد کی بنیاد پر فوجی تنصیبات اور سول مقامات پر جن حملہ آوروں کی نشاندہی کی ہے، ان میں سے کئی افراد کے پی ٹی آئی قیادت سے رابطے ثابت ہوچکے ہیں۔‘
عامر میر کا کہنا ہے کہ ’اس رپورٹ کے بعد کوئی شک و شبہہ نہیں رہا کہ نو مئی کے واقعات منصوبہ بندی اور سوچی سمجھی سازش کے تحت کیے گئے ہیں۔‘
رپورٹ میں بعض ایسے افراد کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، جو جناح ہاؤس اور عسکری ٹاور دونوں مقامات پر حملے میں ملوث پائے گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خود بھی نو مئی واقعات کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ ’اگر ان واقعات میں ان کی پارٹی کے لوگ ملوث ہوئے تو ان کو پکڑوانے میں مدد کریں گے۔‘
لاہور میں جناح ہاؤس پر حملہ کیس میں مبینہ طور پر ملوث افراد میں سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کی بیٹی اور سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی نواسی خدیجہ شاہ بھی شامل ہیں، جنہوں نے منگل کو خود کو پولیس کے حوالے کیا جبکہ بدھ (24 مئی) کو انہیں اور ایک اور خاتون ہما سعید کو پولیس نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے شناخت پریڈ کے لیے سات روزہ ریمانڈ حاصل کر لیا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کا مبینہ حملہ آوروں سے رابطوں کا ریکارڈ؟
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول آئی جی آفس کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کی دستاویزات کے مطابق 154 ایسے افراد کی نشاندہی ہوئی ہے، جو آٹھ مارچ سے مبینہ طور پر زمان پارک میں موجود تھے اور وہی افراد مبینہ طور پر نو مئی کو جناح ہاؤس پر حملے میں ملوث پائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’ان افراد کو عمران خان سے ہدایت ملی اور 215 ایسی فون کالز ٹریس ہوئیں، جو تحریک انصاف کے چھ مرکزی رہنماؤں کو کی گئی تھیں۔‘
رپورٹ کے مطابق: ’ان رہنماؤں میں سے یاسمین راشد کی جناح ہاؤس حملے کے دوران مختلف کارکنوں کو 41 کالز، حماد اظہر کی 10 کالز، میاں محمود الرشید کی سب سے زیادہ 75، اعجاز چوہدری کی 50، میاں اسلم اقبال کی 16 اور مراد راس کی 23 کالز کا ریکارڈ سامنے آیا ہے۔‘
اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث حملہ آوروں سے پی ٹی آئی کے مختلف رہنماؤں کی 88 کالز کا ریکارڈ ملا ہے۔‘
جیو فینسنگ کیا ہے اور ملزمان کو موبائل نمبرز سے کیسے ٹریس کیا گیا؟
لاہور کے سینیئر کرائم رپورٹر نعمان شیخ کے مطابق: ’جیو فینسنگ ایک ایسا جدید نظام ہے جس کے ذریعے جائے وقوعہ پر موجود موبائل فون کے سگنل ٹاور کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اس مقام پر کون سے فون نمبرز پر کالز آئیں اور گئیں۔ اس جگہ پر کون سا موبائل نمبر کتنی دیر تک رہا اور پھر کس سمت میں گیا۔‘
نعمان شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ نظام ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس ہے۔ جب پولیس کو ضرورت ہوتی ہے تو ان سے درخواست کر کے خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نو مئی کو فوجی تنصیبات اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں بھی جیو فینسنگ کی مدد سے ملزمان کو ٹریس کیا جا رہا ہے۔
’پولیس اس ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ بھی معلوم کر رہی ہے کہ سامنے آنے والے نمبر کا موبائل رکھنے والا شخص کتنی دیر تک جائے وقوعہ پر رہا اور کس طرف گیا۔ اگر کوئی فوری روانہ ہو کر دور دراز غیر متعلقہ علاقہ میں چلا جائے تو اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ کوئی راہ گیر تھا۔‘
صوبہ پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’اس نظام کے تحت جائے واردات پر موجود نمبرز کی تفصیل نادرا کو بھجوائی جاتی ہے اور پھر ان نمبروں کی تفصیلات نکال کر شناخت فراہم کی جاتی ہے۔‘
عامر میر کہتے ہیں کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جیو فینسنگ، کال ڈیٹا ریکارڈنگ (سی ڈی آر)، سی سی ٹی وی کیمروں، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے ملزمان کی نشاندہی کی ہے۔‘
فوجی تنصیبات پر حملے میں کتنے افراد پکڑے گئے کتنے مطلوب ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق اب تک جناح ہاؤس حملہ کیس میں چار سو افراد عمارت کے اندر تھے، جن میں سے 215 کی نشادہی ہوئی ہے جبکہ 121 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جناح ہاؤس کے باہر 1400 افراد موجود تھے جن میں سے 910 کی نشاندہی ہوئی جبکہ گرفتار صرف 238 ہوئے ہیں۔
اسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’عسکری ٹاور حملے کے وقت ایک ہزار لوگ موجود تھے، جن میں سے دو سو کی نشاندہی ہوئی اور 63 لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق: ’جی ایچ کیو حملہ کیس میں 300 افراد موجود تھے جن میں سے 158 کی نشادہی ہوئی اور 158 گرفتار ہوئے۔‘
اسی طرح ’حمزہ کیمپ پر حملے کے دوران 150 افراد موجود تھے، جن میں سے 95 کی نشاندہی ہوئی اور 74 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘
آرمی ایکٹ کے تحت کس کے خلاف کارروائی ہوگی؟
سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
وزیر اطلاعات پنجاب اس بارے میں کہتے ہیں: ’یہ طے ہوچکا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تمام ملزمان کے خلاف کارروئی آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ہوگی۔ سول مقامات پر جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت سول عدالتوں میں ہی کارروائی ہوگی۔‘
عامر میر کے بقول: ’تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، شاہ محمود قریشی، فرخ حبیب، یاسمین راشد، مراد راس، مراد سعید، میاں محمود الرشید، مسرت چیمہ، جمشید چیمہ، میاں اسلم اقبال، علی امین گنڈا پور، اسد زمان، مہر شرافت علی، سیف اللہ نیازی، حسان نیازی، زبیر نیازی اور محمد شاہد سمیت دیگر کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی ہوگی۔‘