مانچسٹر یونائیٹڈ فٹ بال کلب کی مداح کی حیثیت سے بڑے ہوتے ہوئے میں نے مردوں کی عینک اور زبان کے ذریعے کھیل اور اس کی مقناطیسی روایات کو سمجھا۔
مجھے اولڈ ٹریفرڈ جانا پسند تھا لیکن مجھے علم تھا کہ عام طور پر خواتین کا احترام نہ کیا جانا اس دن کا ایک پہلو ہو گا۔ میں نے خود کو ’لڑکوں‘ جیسا بنانے پر فخر محسوس کیا اور اس رویے کے لیے خود اپنی ناپسندیدگی کو نظر انداز کر دیا۔
سپورٹس ٹیم کہلانے والے اپنے بینڈ میں ڈرمر اور واحد خاتون ہونے کے ناطے مجھے مماثلتیں دکھائی دیں۔ میں اپنی صنف کو کم سے کم کرنے میں ماہر ہو گئی ہوں تاکہ مردوں کے غلبے والی صنعت میں ایک عورت کے طور پر فٹ ہو سکوں اور مجھے سنجیدگی سے لیا جائے۔
آپ کی نفسیات پر پڑنے والا طویل مدتی اثر طاقتور ہوتا ہے۔ ایک خاتون کے طور پر آپ محسوس کرتی ہیں کہ آپ ان جگہوں پر رہ سکتی ہیں لیکن ان کی مالک نہیں ہیں۔ یہ وہ خاموش ’قاعدہ‘ تھا جس نے معاشرتی دنیا کے بارے میں میرے خیال کی تشکیل کی اور میں نے دوسروں کے ساتھ معاملات کرنا سیکھا۔
خواتین کے حالیہ ایف اے کپ کے فائنل جیسے لمحات نے اس سوچ کو ختم کر دیا کہ خواتین کے کھیل اتنے اہم نہیں ہیں۔ میں نے اپنی ٹیم کو تماشائیوں سے کچھا کھچ بھرے ویمبلے کے میدان میں جاتے ہوئے دیکھا اور اپنے بچپنے پر روئی جب میں نے گذشتہ موسم گرما میں لائیونسز (انگلینڈ کی خواتین کی قومی ٹیم) کو دیکھا تھا۔
میں نے خوشی اور خواہش کے امتزاج کو محسوس کیا کیوں کہ اس نے مجھے یہ احساس دلایا کہ خاتون کھلاڑیوں کی اگلی نسل کے پاس اب لامتناہی مواقع موجود ہیں۔
خواتین کے کھیل کو اس پیمانے کے سٹیج پر رکھنے سے اس کی اہمیت کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ میچ میں شائقین کی ریکارڈ توڑ موجودگی فٹ بال کلب آرسنل کی جانب سے ڈومیسٹک کلب کا ریکارڈ توڑنے کے چند ہفتوں بعد سامنے آئی ہے۔
60 ہزار شائقین کی گنجائش والے سٹیڈیم ایمریٹس کی تمام ٹکٹیں فروخت ہو چکی تھیں۔ ریکارڈ توڑنے کا یہ تسلسل اس کھیل میں دلچسپی اور حمایت کی مثال ہے جو ایک بار پھر حاصل ہے۔ (یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ڈک کیر خواتین کی ٹیم نے ایف اے پر پابندی سے پہلے 1920 کی دہائی میں 50 ہزار سے زیادہ تماشائیوں کو متوجہ کیا تھا۔)
اگرچہ پارٹی کی جانب سے خواتین کی پیشہ ورانہ ٹیم بنانے میں دیر ہو چکی ہے لیکن مانچسٹر یونائیٹڈ کی صرف پانچ سالوں میں کی گئی سرمایہ کاری واقعی متاثر کن رہی ہے۔ ایک مداح کے طور پر میں نے بڑی مارکیٹنگ کمپین اور ’مردوں‘ کے گراؤنڈ اولڈ ٹریفورڈ میں منعقد ہونے والے بڑے ایونٹس کے ساتھ کلب کی جانب سے بامعنی عزم کا ثبوت دیکھا ہے۔ اس کے باوجود جیسا کہ یونائیٹڈ ویمن نے ایک اور اہم ٹائی میچ کھیلا جو اپنے حریف مانچسٹر سٹی کے خلاف اپنے آخری ہوم گیم میں لیگ میں پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست مقام حاصل کرنے کے لیے میدان میں اتری تھی، یہ مرحلہ لی سپورٹس ویلیج گراؤنڈ تک محدود ہو گیا۔
اس میچ کے لیے کھیل سے چند ہفتے قبل ہی شہر کے مضافات میں واقع 12 ہزار تماشائیوں کی گنجائش والے سٹیڈیم کے تمام ٹکٹس فروخت ہوگئے اور گذشتہ ہفتے اپنی گنجائش سے چھ گنا زیادہ تماشائیوں کو راغب کرنے کے باوجود کوئی گراؤنڈ اپ گریڈ نہیں ہوا ہے۔
کلب نے اشارہ دیا کہ جب وہ اولڈ ٹریفورڈ میں میچ کی میزبانی کے لیے پرعزم تھے تو شہر میں ’عوامی تقریبات‘ کے باعث اسے روک دیا گیا۔ اگرچہ شاید یہ یونائیٹڈ کے بس سے باہر ہے لیکن اس طرح کے چیلنجز کا تصور کرنا بھی مشکل ہے، جب بات مردوں کے میچ کی ہو۔
واضح طور پر خواتین کے فٹ بال میچ کی عوامی تقریبات کی درجہ بندی کوئی جگہ نہیں۔ یہ فیصلہ خواتین کے کھیل کے لیے کم جوش و خروش کی ایک اور مثال ہے جیسا کہ خواتین کے ورلڈ کپ کے لیے ٹی وی کے حقوق کے گرد گھیرا تنگ کرنا۔ ٹورنامنٹ سے صرف دو ماہ قبل، فیفا نے بہت سے یورپی ممالک میں ٹی وی بلیک آؤٹ کی دھمکی دی ہے کیوں کہ وہ براڈکاسٹر کسی معاہدے پر دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے، جو مردوں کے بڑے ٹورنامنٹس سے برسوں پہلے سے ہی ایسے معاہدے کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شائقین کی ڈیمانڈ اور فٹ بال کی منصوبہ بندی کرنے والے ڈھانچے کے درمیان ایک جارحانہ فرق ہے۔ کھیل کی رفتار ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئی ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔ ایلیسیا روسو اور لی گالٹن جیسی سپر سٹارز کو ایک ہفتے ویمبلے میں کھیلتے ہوئے دیکھنا اور پھر صرف دن بعد سپورٹس ولیج میں بھیجے جانے میں بہت زیادہ تضاد محسوس ہوتا ہے۔ لہذا گذشتہ ہفتے کے فائنل سے پیدا ہونے والے جوش و خروش کو ماند کرنے پر اٹھنے والے غصے کو ان تنظیموں کے احتساب سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
پھر بھی خواتین کے کھیل کی روایتی کشش دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور ترقی کی رفتار چکرا دینے والی ہے۔ میں دنیا کے بارے میں بنیادی اصولوں پر یقین کرتے ہوئے بڑی ہوئی ہوں جو اب زیادہ تر متعلقہ نہیں رہیں۔
اگرچہ گذشتہ اتوار کو یونائیٹڈ کو سیم کیر کی شاندار کارکردگی کے باعث شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن گراؤنڈ میں میری قطار میں قریب بیٹھی ایک نوجوان لڑکی کو دیکھ کر میرا دل بڑا ہو گیا۔ فٹ بال کے شوق کا اس کا سفر میرے اپنے شوق سے بالکل مختلف ہوگا۔ وہ دنیا جس میں حصہ لینے کے لیے مجھے اپنی شناخت کے کچھ پہلوؤں کو دبانا پڑا، وہ راہ نوجوان لڑکیوں کی اگلی نسل کے لیے کھل گئی ہے۔
میرے کیریئر میں تبدیلی کا عمل سست رفتاری کے باوجود جاری ہے۔ میں اب بھی ایک ایسی دنیا میں رہتی ہوں جس پر مردوں کے ایک بڑے یکساں گروپ کا غلبہ محسوس ہوتا ہے لیکن میں خواتین کے کھیل کے جتنا قریب رہتی ہوں میں ان جگہوں پر اتنا ہی بہادر محسوس کرتی ہوں۔
اس منظر نے مجھے حوصلہ دیا جب میں پچھلے اتوار کو آخری مداحوں کے درمیان سٹیشن کی طرف روانہ ہو رہی تھی۔ میں نے کسی ایسے شخص کے لیے ایک سنسنی اور نیا پن محسوس کیا جو ’نیو لیبر بریٹین‘ کے بعد کے دور میں پروان چڑھا اور جو امید اور مستقبل کے جوش و خروش سے لبریز تھا۔
اگر ہم ٹوکن ازم کو چیلنج کرتے اور کھیل سے وابستگی کو سرایت کرتے ہیں تو اس میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ کھیل کو گاڑی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، ہم ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں جہاں ہر لڑکی خوبصورت کھیل میں اور اس سے آگے اپنی جگہ کی مالک ہو سکتی ہے۔
نوٹ: ایلیکس گرین وڈ سپورٹس ٹیم نامی بینڈ میں ڈرمر ہیں۔
© The Independent