نو مئی 2023 کے بعد پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ایک بات تو واضح ہوچکی ہے کہ عدالتی دباؤ کے باوجود حکومت قومی و صوبائی انتخابات ایک ہی دن کروانے پر مصر ہے۔ لیکن یہ کب ہوں گے اب تک واضح نہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کے لاہور میں اس بیان نے کہ ’انتخابات تب ہوں گے جب وہ چاہیں گے‘ اکتوبر میں بھی ان کے انعقاد کو شک میں ڈال دیا ہے۔
ان کا لاہور میں بلاول ہاؤس میں پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز سے ملاقات میں یہ بیان سامنے آیا۔ ان کا مزید کہنا تھا ’یہ دو ماہ میں الیکشن نہیں کرا سکتے، الیکشن تبھی ہوں گے جب میں کراؤں گا۔‘
اسی موقع پر ان کی پیش گوئی کہ پارٹی کو ’صبر کا وہ پھل ملے گا جس کا آپ کو اندازہ ہی نہیں، سارے دکھ درد دور ہوجائیں گے‘ ان کے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔
دوسری جانب انتخابی دنگل کی تیاری جاری ہے۔ ایک بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف جہاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وہیں دوسری جانب اس کے سابق رہنما جہانگیر ترین اور ہاشم ڈوگر نے مختلف گروپس تشکیل دینے شروع کر دیئے ہیں جن کے سیاسی جماعت کی صورت اختیار کرنے سے متعلق خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔
ایسے میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حالیہ بیان میں سوال کیا ہے کہ ’کیا ہم اس ملک کی موجودہ صورت حال کو نئے ہنگاموں کی بھینٹ چڑھا دیں یا اسے پہلے کھڑا کر کے چلائیں؟ اس پر مشاورت ہو سکتی ہے جو ملک کے لیے بہتر ہوگا۔‘
قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع یا اسے وقت سے پہلے تحلیل کرنے سے متعلق ماضی میں دیے گئے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے بیانات نے انتخابات کی تاریخ کے بارے میں ابہام کو تقویت بخشی ہے۔
سوال یہ اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ کیا واقعی حکومت قومی اسمبلی کی اگست میں ختم ہونے والی مدت میں توسیع یا وقت سے پہلے تحلیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت نے کیا اس حوالے سے اتحادی جماعتوں سے مشاورت شروع کی ہے؟
کیا اکتوبر نومبر تک سیاسی و معاشی حالات اچھے نہ ہوئے ہوئے تو انتخابات وقت پر ہوں گے؟ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر اور دیگر اقتصادی مشکلات انتخابات کی تاخیر کی بڑی وجہ بن سکتی ہیں؟
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ملک کو 1.1 ارب ڈالر کی قسط نومبر سے رکی ہوئی ہے۔ یہ قسط سال 2019 میں طے شدہ 6.5 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کا حصہ تھی۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی فنڈنگ انتہائی اہم اور ’اسے بچانے کا آخری حربہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ انتخابی سال ہونے کی وجہ سے حکومت عوام کو رعایتیں دینا چاہتی ہے لیکن خزانہ تقریبا خالی ہے۔
حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے ایک بیان میں کہا کہ مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کی بھرپور کوشش ہے کہ اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی جائے۔ ’یہ ان کی خواہش ہے کہ اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع ہو جبکہ وہ جماعتیں جو پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ان سے اس سلسے میں بات کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔‘
کیا قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع ممکن ہے؟
پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 232 کے مطابق جب ہنگامی حالت نافذ العمل ہو تو قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال تک توسیع ہو سکتی ہے یعنی اسمبلی کے انتخابات ایک سال تک ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔
’لیکن یہ یاد رہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات ملتوی نہیں ہو سکتے کیونکہ آئین میں صوبائی اسمبلی کی مدت میں توسیع سے متعلق کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘
اگر قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع کی جاتی ہے تو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پھر بھی کروانے پڑیں گے۔ یوں صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات مختلف اوقات میں ہوں گے، یہ وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات 90 روز کے اندر نہیں ہوئے۔
احمد بلال نے کہا کہ قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع کی منظوری پارلیمان کے دونوں ایوانوں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے لینی پڑے گی۔ ’ماضی میں جب بھی ہنگامی حالت کا نفاذ ہوا، یہ معاملہ عدالت میں جانے کے بعد اسے غلط یا ناجائز قرار دیا گیا اور ایمرجنسی کا اعلان منسوخ ہو گیا۔ جب بھی ہنگامی حالت نافذ ہوگی تب ان کے عدالتوں میں چیلنج ہونے اور انہیں واپس کرنے کا امکان بھی رہے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قبل از وقت قومی اسمبلی کی تحلیل؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں قومی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع کے حوالے سے تاحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے پر ہی اکتوبر میں انتخابات ہوں گے۔ ’لیکن اگر اس سے پہلے اسمبلی تحلیل کر دی گئی جو آئینی حق ہے تو پھر ہمارے پاس 90 روز کا وقت ہوگا، جس کا مطلب نومبر میں انتخابات ہیں۔‘
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر نے کہا ہے کہ عام انتخابات کو 10 نومبر سے آگے نہیں جانا چاہیے جبکہ چاروں صوبوں میں وفاق کے ساتھ ایک وقت میں انتخابات ہوں گے۔ دو روز بعد پیش ہونے والے بجٹ میں انتخابات کے لیے تمام وسائل رکھے گئے ہیں۔
اس سال 12 اگست کو قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد اکتوبر 2023 تک قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہونا ہیں۔ قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے کی صورت میں انتخابات رواں سال 12 اکتوبر کو ہوں گے جبکہ اسے قبل از وقت تحلیل کیے جانے کی صورت میں عام انتخابات کے انعقاد کی آخری تاریخ 11 نومبر ہوگی۔ قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال تک توسیع کی صورت میں انتخابات اکتوبر 2024 تک ملتوی ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اندر سے مختلف اشارے مل رہے ہیں۔ ایک جانب آصف علی زرداری کا بیان اور دوسری جانب ترجمان اور وزیر مملکت فیصل کریم کنڈی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان کی جماعت قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع نہیں چاہتی۔ ’تاحال حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع کے حوالے سے ان کی جماعت سے نہ کوئی بات کی اور نہ ہی ان کی جماعتوں کے درمیان اس پر کوئی مشاورت ہوئی ہے۔ لیکن قومی اسمبلی کو وقت سے پہلے تحلیل کرنے سے متعلق معاملہ زیر غور ضرور ہے۔‘
تحریک انصاف جلد از جلد انتخابات کی خواہاں ہے اور اسے شکایت ہے کہ ملک کو قانونی طریقے سے نہیں چلایا جا رہا ہے تو اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی۔