بھارت کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی پر حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کے اعلان اور پاکستان کی طرف سے دہلی کی غیر ضروری مہم جوئی کے امکان پر اجلاس کے بعد خطے میں نئی لیکن خطرناک صورت حال نے جنم لیا ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان کی خصوصی کشمیر جائزہ کمیٹی کا اجلاس ہفتے کے روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کے شرکاء اس نتیجے پر پہنچے کہ بھارت کشمیر کی صورت حال کے پیش نظر فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے۔
کمیٹی کے اجلاس کے بعد شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو اور دوسری پابندیاں اٹھنے کے بعد نئی صورت حال سامنے آ سکتی ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کشمیر سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے۔ یہاں فالس فلیگ آپریشن سے مراد کوئی ایسی کاروائی ہو سکتی ہے جس میں بھارت اپنے لوگوں کو کشمیریوں یا پاکستانیوں کے بھیس میں استعمال کرے اور اس کا الزام اسلام آباد پر لگا دے۔
اس موقعے پر پاکستانی فوج کے ترجمان آصف غفور نے کہا کہ اگر کچھ لوگ لائن آف کنٹرول عبور کر لیتے ہیں تو یہ بھارتی حکام کی ناکامی ہو گی۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ پاکستانی افواج ہر قسم کی صورت حال کے لیے تیار ہیں۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جمعے کے روز بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے مقام پوکھران کے دورے کے بعد ایک ٹوئیٹر پیغام میں کہا ’ہندوستان نے اس (پہلے استعمال نہ کرنے کے) نظریہ پر سختی سے عمل کیا ہے۔ مستقبل میں کیا ہوتا ہے اس کا انحصار حالات پر ہے۔‘ بھارتی وزیر دفاع کا بیان سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث شروع ہونے سے محض چند گھنٹے پہلے آیا۔ جب اسلام آباد اور دہلی کے درمیان تناؤ اپنے عروج پر تھا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے راج ناتھ کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا ’کہ یہ بظاہر پاکستان کے لیے مخفی دھمکی لگتی ہے۔ بھارت کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے پالیسی سے متعلق حالات کے مطابق فیصلے کرنے کا اعلان واضح اشارہ ہے کہ دہلی خود اپنے اوپر لگائی گئی اس پابندی کو کسی بھی وقت ختم کر سکتا ہے۔‘
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
تجزیہ کار بھارتی وزیر دفاع کی دھمکی کو ایک غیر عقلمندانہ سیاسی بیان قرار دیتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کہتے ہیں: ’بھارت اس سے قبل بھی کئی مرتبہ ایسی دھمکیاں دے چکا ہے۔ جب بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تناو بڑھتا ہے دہلی کی طرف سے اسی قسم کے بیانات سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ راج ناتھ کے بیان کو محض ایک سیاسی بیان سے زیادہ نہیں سمجھنا چاہیے۔
بین الاقوامی امور کے استاد اور تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے بھارتی وزیر دفاع کی بات کو غیر ضروری گردانا۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’بھارتی حکمران بالکل باولے ہو گئے ہیں۔ آگ پر پانی کی بجائے تیل چھڑک رہے ہیں۔ جو کوئی عقلمندانہ حرکت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے فیصلوں سے خطے میں صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔‘
جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کا نظریہ کیا ہے؟
نو فرسٹ یوز یا این ایف یو نظریے سے مراد کسی جوہری ہتھیار رکھنے والے ملک کا عہد یا پالیسی ہے کہ وہ اس وقت تک اپنے دشمن کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا جب تک اس پر ایسے ہتھیاروں سے حملہ نہیں ہوتا۔ یہی نظریہ ماضی میں کیمیاوی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر بھی لاگو رہا ہے۔
چین دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے 1964 میں جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے بعد این ایف یو نظریے کو اپنایا۔ اور اس عہد کا اظہار کیا کہ وہ کسی بھی وقت یا کیسے بھی حالات میں جوہری ہتھیار جنگ کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے میں پہل نہیں کرے گا۔
چین نہ صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ بلکہ دنیا کی پانچ دوسری ایٹمی قوتوں کو بھی این ایف یو سے متعلق معاہدات کرنے کی دعوت دیتا رہا ہے۔ تاہم امریکہ ابھی تک این ایف یو پر عمل کے لیے راضی نہیں ہوا۔
چین کے بعد بھارت وہ دوسرا ملک ہے جس نے این ایف یو کے نظریے کو اپنایا ہے۔ بھارت نے ایسا 1998 میں دوسرا ایٹمی دہماکہ (پوکھران ٹو) کرنے کے ایک سال بعد ہی کر دیا تھا۔ تاہم 2003 میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے بھارت کے جوہری نظریے میں کچھ تبدیلیاں کیں اور اسے منظر عام پر لے آئی۔
بھارت کے جوہری نظریے کے چند اہم نکات یہ ہیں:
1۔ جوہری ہتھیاروں کا استعمال صرف ہندوستان کی سرزمین پر یا کہیں بھی ہندوستانی افواج پر جوہری حملے کے بدلہ میں کیا جائے گا۔
2۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دینے کا اختیار (نیوکلئیر کمانڈ اتھارٹی کے ذریعے) صرف عوامی سیاسی رہنماوں کے پاس ہو گا۔
3۔ بھارت کسی جوہری صلاحیت نہ رکھنے والے ملک کے خلاف ایسے ہتھیار استعمال نہیں کرے گا۔
4۔ کسی پہلے جوہری حملے کے خلاف بھارت کا جواب بڑے پیمانے پر ہوگا اور اسے ناقابل قبول نقصان پہنچانے کے لیے ڈیزائن کیا جائے گا۔
این ایف یو کا نظریہ نہ اپنانے والے ممالک
چین اور بھارت کے علاوہ دنیا میں پانچ مزید ایسے ملک ہیں جن کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان میں امریکہ، روس، پاکستان، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ یہ تمام ملک اپنے معروضی حالات کے پیش نظر جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کا موقف ہے کہ کسی بھی قسم کے حملے کی صورت میں اس کے پاس موجود ہتھیاروں میں سے کسی بھی قسم کا ہتھیار استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اس کے جوہری ہتھیاروں کو پہلے استعمال نہ کرنے کا نظریہ اپنانے کی صورت میں بھارت کو اس کے خلاف روایتی جنگ چھیڑنے کا موقع دینے کے مترادف ہو گا۔ پاکستان کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز، جوہری ہتھیاروں کے پہلے استعمال کا حق رکھنے کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’اگر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد ہماری یہ پالیسی نہ ہوتی تو دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ سکتی تھی۔‘
این ایف یو کی افادیت کیا ہے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق این ایف یو محض ایک سیاسی اور سفارتی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی بڑی سنجیدہ چیز نہیں ہے۔ یہ صرف سیمینارز وغیرہ میں بحث کے لیے بہت خوب آئیڈیا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ بھارت نے اس پالیسی کو اپنایا ہوا ہے لیکن دنیا کو اس بات پر یقین نہیں کہ وہ اس پر پوری طرح عمل کریں گے۔‘
جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کے خیال میں ’این ایف یو کے نظریے کو اپنانے کے باوجود بھارت کی ایسی دھمکیاں اس نظریے کی غیر افادیت کا ثبوت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی ملک جوہری ہتھیار رکھنے کے باوجود انتظار کرے گا کہ پہلے اس پر ایٹم بم گرایا جائے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بالکل ہی غیر فطری سی بات ہے۔ تاہم جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے کہا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والی قوموں کو زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا۔ کیونکہ ایسے ہتھیاروں کا استعمال بڑی تباہی لاتا ہے۔