آسٹریا سے سبرینا فلزموسر جو کہ چار مرتبہ جوڈو اولمپیئن رہ چکی ہیں آج کل سکردو میں ہیں، جن کا مشن اپنی سائیکل پر پاکستان میں واقع دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سر کرنا ہے۔
سبرینا کا تمام سفر سائیکل پر منحصر نہیں ہوگا، جہاں تک سائیکل انہیں لے کر جا سکی اور جہاں یہ سواری بھی جواب دے جائے گی وہاں سے وہ پیدل بیس کیمپ تک جائیں گی اور پھر بغیر آکسیجن کے ٹو سر کریں گی۔
سبرینا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکا آکسیجن کے بغیر جائیں گی لیکن جہاں انہیں مشکل ہوئی وہ آکسیجن کا استعمال کریں گی۔
42 سالہ سبرینا نے اپنا سفر ڈیڑھ ہفتے قبل اسلام آباد سے شروع کیا تھا۔
انہوں نے بتایا: ’میرا ایک خاص مشن ہے جسے ’جوڈو فار پیس‘ کہتے ہیں۔
جو میں نے اپنی سائیکل پر اسلام آباد سے شروع کیا ہے اور گلگت سے ہوتے ہوئے اب میں سکردو پہنچی ہوں۔ اب میں کے ٹو پر جانے کی تیاری کر رہی ہوں۔‘
سبرینا کے مطابق: ’میں اس مشن پر اس لیے ہوں کیونکہ میں نے گذشتہ برس سطح سمندر سے شروع کرتے ہوئے ایورسٹ سر کی تھی جس کے لیے میں نے اپنا سفر مغربی بنگال سے شروع کیا تھا۔
میں اپنی سائیکل پر انڈیا اور نیپال سے ہوتے ہوئے ایورسٹ تک پہنچی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ وہاں انہیں ایک جوڈو کلب ملا ’جو کہ دنیا کا سب سے اونچے مقام پر واقع جوڈو کلب ہے۔‘
سبرینا نے بتایا کہ وہ چار مرتبہ جوڈو اولمپین رہ چکی ہیں اور گذشتہ کچھ دہائیوں کے دوران انہوں نے ہائی لیول جوڈو کھیلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ جوڈو کے کھیل اور کھلاڑیوں کی حمایت کرنا چاہتی ہیں خاص طور پر وہ جو دنیا بھر میں دور دراز علاقوں میں ہیں۔
سبرینا کہتی ہیں کہ انہیں پہاڑوں پر چڑھنے کا ہمیشہ سے شوق تھا لیکن آسٹریا میں ان کے پاس مشکل سے سر کیے جانے والے پہاڑ ہیں لیکن وہ قراقرم رینج اور ہمالیہ کی نسبت بہت چھوٹے ہیں۔
’اور میں نے سوچنا شروع کیا کہ نیپال میں کامیابی کے بعد میں پاکستان کیسے جا سکتی ہوں۔ اسی سلسلے میں پاکستان جوڈو فیڈریشن نے میرے ساتھ شروع سے ہی تعاون کیا۔
’میرا منصوبہ تو کراچی کے سی لیول سے اپنا سفر شروع کرنا تھا لیکن پھر ملک کی سیاسی صورت حال کے پیش نظر یہ ناممکن ہو گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سبرینا کے مطابق آخری لمحات میں انہوں نے اپنا منصوبہ تبدیل کیا۔
’میں نے اپنا سفر اسلام آباد سے شروع کیا۔ یہ آسان تو نہیں تھا لیکن کچھ آسانی تھی لیکن چیلنج اب بھی وہیں ہے۔ لیکن اب اسے ’کیپیٹل ٹو کے ٹو‘ کہا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا ان کے خیال میں یہ بھی ایک بہترین تجربہ ہے کہ وہ یہاں پہاڑی سلسلے تک پہنچ گئی ہیں۔
’پہلے دن ہم نے ایبٹ آباد سے شروعات کی جہاں ہمیں وہاں کے جوڈو کلب کی جانب سے بھرپور خوش آمدید کہا گیا۔
’اس کے بعد گلگت گئی اور پھر کوہستان لیکن میں خوش قسمت تھی کہ میرے ساتھ کبھی کبھار پولیس ہوتی تھی اور میرا سفر پاکستان جوڈو فیڈریشن کے صدر کی مدد سے کافی آسان رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ گلگت میں بھی میں کافی مارشل آرٹس کے کھلاڑیوں سے ملیں اور انہوں نے وہاں کچھ جوڈو کے سیشنز میں بھی حصہ لیا۔
’میں نے انہیں وہ سب آلات بھی دیے جو میں ایک بڑی جیپ میں اپنے گائیڈ گل کی مدد سے ساتھ لائی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے راستے میں بہت سے حیران کن تجربات بھی ملے۔
’سب ایک خاتوں سائیکلسٹ کو دیکھ کر خوش تھے۔ اس کے لیے مجھے بہت ہمت کرنا پڑی لیکن اب میں سکردو میں ہوں مجھے لگتا ہے کہ میں کامیاب ہو چکی ہوں۔ کچھ دن سکردو میں رکوں گی اس کے بعد میں سائیکل پر چولا کیمپ تک جاؤں گی۔ اس سے آگے سائیکل پر نہیں جا سکوں گی۔ وہاں سے میں اپنے ہائیکنگ بوٹس پہنوں گی اور پھر مجھے چار سے پانچ دن کے ٹو بیس کیمپ تک پہنچنے میں لگیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہاں سے ان کا کے ٹو سر کرنے کا سفر موسم اور برف کے حالات دیکھتے ہوئے اگلے چھ سے آٹھ ہفتوں میں شروع ہوگا۔
سبرینا سکردو میں سائیکلسٹس سے بھی ملاقات کر رہی ہیں اور پر امید ہیں کہ وہ اپنے مشکل مشن میں کامیاب ہو جائیں گی۔