حکام کے مطابق بنگلہ دیش میں قید ایک جلاد شاہجہاں بھوئیاں کو آج (اتوار) رہا کر دیا گیا۔
شاہجہاں نے شیخ مجیب الرحمان کے قاتلوں اور بغاوت کے منصوبہ سازوں سمیت دو درجن سے زائد ساتھی قیدیوں کو پھانسی دی تھی جس کے بدلے ان کی سزا میں کمی کی گئی۔
شاہجہاں نے 32 سال قبل قتل کے جرم میں قید ہونے کے بعد حکام کو اپنی صلاحیتیں دکھائیں اور پھر 26 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے کے طور پر بدنام ہوئے۔
انہوں نے جن کو پھانسی دی ان میں 1975 کی بغاوت کی منصوبہ بندی اور ملک کے بانی رہنما یعنی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد کو قتل کرنے کے مبینہ مجرم فوجی افسران بھی شامل تھے۔
ڈھاکہ سینٹرل جیل کی ڈپٹی چیف تانیہ زمان نے اے ایف پی کو بتایا: ’پھانسیاں دینے کے بدلے ان کی سزا میں کمی کی گئی۔ ’قید کے دوران انہوں نے 26 پھانسیاں دیں۔‘
ایک اور جیل عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جن لوگوں کو شاہجہاں نے پھانسی دی ان میں سرکردہ رہنما علی احسن مجاہد اور حزب اختلاف کے رہنما صلاح الدین قادر چوہدری شامل ہیں۔
عہدے دار نے مزید بتایا کہ 2007 میں انہوں نے کالعدم جمعیت المجاہدین بنگلہ دیش کے رہنما صدیق اسلام عرف بنگلہ بھائی کو بھی پھانسی دی تھی، جو دو سال قبل ملک گیر بم دھماکوں کے سرغنہ تھے۔
74 سالہ شاہجہاں نے ان پھانسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان سے انہیں اپنی سزا کم کرنے میں مدد ملی۔ ’اگر میں انہیں پھانسی نہ دیتا، تو کوئی اور دیتا۔‘
انہوں نے کہا، ’اگر ایک مجرم کی حیثیت سے مجھے ان سے ہمدردی بھی ہو، تو بھی میں ایسا کرنے کا پابند ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بنگلہ دیش نے 1971 میں پاکستان سے علیحدگی کے بعد سے اب تک تقریباً 500 افراد کو سزائے موت دی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دو ہزار سے زائد قیدیوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
بنگلہ دیش ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جو اب بھی پھانسی دے کر سزائے موت پر عمل پیرا ہے۔
بنگلہ دیش کے سبھی جلاد شاہجہاں کی طرح طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے منتخب شدہ قیدی ہیں جنہیں اس کام کی تربیت دی گئی۔
شاہجہاں کو سب سے پہلے 2007 میں 24 افراد کے قتل کے ملزم ارشاد سکندر کو پھانسی دینے کے لیے تیار کیا گیا۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس شخص نے کیا جرم کیا، جب وہ موت کا سامنا کرتا ہے، تو آپ میں اس کے لیے کچھ ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
میں نے طویل عرصے تک جیل کی سزا کاٹی ... حکام نے میرے آرام کا خیال رکھا اور عزت کی۔ میں نے اچھا وقت گزارا۔‘