بھارت میں انتہا پسند حکمران جماعت 40 لاکھ افراد جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے کو ایک جنبشِ قلم سے غیرملکی تارکین وطن قرار دینے کی تیاری کر رہی ہے، چونکہ مودی حکومت ایک سخت گیر ہندو قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے جس نے ملک کی لبرل روایات کو چیلنج کیا ہے اور اس کا مقصد ’ہندوستانی‘ ہونے کے معنی کی وضاحت کرنا ہے (یعنی ایک ہندو ہی ایک حقیقی بھارتی شہری ہو سکتا ہے)۔
اپنے زیر انتظام کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کو متاثر کرنے کے لیے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کے بعد بی جے پی حکومت کا یہ نیا قدم غریب اور پہاڑی ریاست آسام (جس کی سرحدیں بنگلہ دیش اور برما سے ملتی ہیں) کے مسلمانوں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا۔ اکثریتی افراد جن کی شہریت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جو بھارت میں ہی پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے اور تمام شہری حقوق جن میں ووٹ کا حق بھی شامل ہے، استعمال کرتے رہے ہیں۔
ریاستی حکام تیزی سے غیرملکیوں کے لیے عدالتوں میں توسیع اور حراستی مراکز کی تعمیر کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے سینکڑوں افراد کو تارکین وطن ہونے کے شبہے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ گرفتار کیے گئے ان افراد میں بھارتی فوج کے لیے خدمات انجام دینے والا ایک مسلمان سپاہی بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم انتہا پسند وزیراعظم نریندرا مودی کی حکومت اس فیصلے سے پیچھے ہٹتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کے بجائے یہ مہم لوگوں کو یہ ثابت کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ ہندوستان کے شہری ہیں۔ یہ ایک طاقتور ہندو قوم پرست پروگرام کا حصہ ہے جو مودی کے مئی میں دوبارہ انتخابات میں کامیابی اور ان کی مقبولیت کے تناظر میں تیار کیا گیا ہے۔ مودی کے انتخابی منشور اور ان کی انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارت کی مسلم اقلیتی برادری میں خوف پایا جا رہا ہے۔
آسام میں شہریت ثابت کرنے کی دستاویزی مہم جو مودی کے پہلے دورِ اقتدار میں شروع ہوئی تھی رواں ماہ کی 31 تاریخ تک سمیٹے جانے کا امکان ہے اور یہ مسلمانوں کے لئے دوسرا دھچکا ہے۔ کیوں کہ اس سے دو ہفتے قبل آسام سے ایک ہزار میل سے زیادہ دور کشمیر میں وزیراعظم مودی نے انتخابی منشور پر عمل درآمد کرتے ہوئے بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی ریاست کا صفایا کردیا۔ اس متنازع خطے کی خصوصی خود مختارحیثیت کو ان مقامی کشمیری رہنماؤں کی مشاورت کے بغیر ہی ختم کر دیا گیا جن میں سے بہت سے اب تک زیر حراست ہیں۔
دستاویزی شواہد کے ساتھ آسام کےتین کروڑ 30 لاکھ باشندوں (جن میں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں) کو یہ ثابت کرنا پڑا ہے کہ وہ یا ان کے آباؤ اجداد 1971 کے اوائل سے قبل ہندوستانی شہری تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہو کر نئے ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا تھا۔
یہ آسان نہیں ہے۔ لاکھوں خاندان کئی دہائیوں پرانے جائیداد کے دستاویز یا آباؤ اجداد کے نام کے ساتھ پیدائشی سرٹیفکیٹ پیش کرنے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
© The Independent