ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے جو اپنی مرضی سے کسی چھوٹی سی آبدوز میں سوار ہو کر سمندر کی ہلاکت خیز گہرائیوں میں اتر جائیں۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے بحر اوقیانوس کی تہہ میں موجود غرقاب بحری جہاز ٹائی ٹینک میں ختم نہ ہونے والی دلچسپی پائی جاتی ہے۔
اسی لیے لاپتہ ہونے والی آبدوز ٹائی ٹن کی خبر نے دنیا کی توجہ اور سوچ کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ ’ڈارک ٹورازم‘ (یا تاریک سیاحت) کے تحت تحقیق کے ترقی کرتے ہوئے شعبے کے سکالر کے طور پر بدقسمت اوشن گیٹ مہم کی طرح تکلیف اور المیے سے جڑی دوسری سیاحتی سرگرمیاں میرے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں ہیں۔
’ڈارک ٹورازم‘ کے رجحان نے کئی سال سے محققین کو متوجہ کر رکھا ہے لیکن اب سیاحوں کو ظلم، تشدد اور تباہی سے منسلک مقامات کی طرف تیزی سے راغب کیا جا رہا ہے۔ ان تاریخی مقامات میں نازی حراستی مراکز آشوٹز- برکناؤ، چرنوبل (یوکرین میں جنگ سے پہلے) اور گراؤنڈ زیرو شامل ہیں۔ تاہم اب یہ ’تجربات‘ غلامی، جنگ، مرنے والی مشہور شخصیات، سلسلہ وار قتل، قدرتی آفات اور جیسا اوشن گیٹ نے اہتمام کیا یعنی ٹائی ٹینک جیسے مقامات کی سیر کی خاطر سمندری سانحات ہو سکتے ہیں۔
اگر سخت بات کی جائے تو یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ اس طرح کی جگہوں اور پرکشش مقامات کا سفر تاریخ میں بہت سی مختلف شکلوں میں موجود رہا ہے۔
گلیڈی ایٹر گیمز، قرون وسطی کے سفر، 19ویں صدی میں مردہ خانوں کے گائیڈڈ دورے اور سرعام پھانسیوں کی نمائش کے بارے میں سوچیں۔ درحقیقت لندن کے قریب فنچلے کامن وہ جگہ تھی جہاں 1782 میں بدنام زمانہ قاتل ولیم سمتھ کی پھانسی کے بعد اتوار کے روز ان کی لاش کا نظارہ دیکھنے 40 ہزار افراد کھنچے چلے آئے تھے۔
تو آخر یہ رغبت کیا ہے؟ جہاں زندگی ہے وہاں موت ہے اور یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے جو ہم سب کو متاثر کرے گی۔
پوری تاریخ میں بنی نوع انسان موت سے دوچار رہی ہے جو رسومات، عقائد اور رسوم و رواج میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی فنکارانہ طور پر تشریح کی گئی ہے جیسا کہ 1493 میں جرمن مصور مائیکل ولگیمٹ کی جانب سے بنائی گئی ’ڈانس آف ڈیڈ‘ کی مشہور تصویر۔
تحقیق موت کے بارے میں حسن ظن کو اجاگر کرتی ہے جو ثقافت اور آرٹ میں، گانوں، رسومات، رسوم و رواج اور تقریبات میں دیکھا جا سکتا ہے جیسا کہ دنیا بھر میں منایا جانے والا ’ڈے آف ڈیڈ‘ یا جاپان کا ’اوبون‘ تہوار۔
ڈارک ٹورازم میں فرار پسندی، فنٹیسی اور شہوت کے نظارے سے لطف اٹھانے جیسے عناصر بھی ہو سکتے ہیں۔ دیگر محرکات میں اجتماعی شکایت کی کارروائیاں یا دردناک واقعات کو یاد کرنا اور انہیں یادگار بنانا شامل ہو سکتا ہے۔
وجوہات بہت ہیں۔ بہت سے لوگ انسانی المیوں والے مقامات کے کمرشلائز ہونے اور انسٹاگرام کے لیے تصاویر بنانے کے خیال سے پریشان ہو سکتے ہیں لیکن ڈارک ٹورازم ہمیشہ منفی نہیں ہوتی۔
حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے سیاح اب ثقافتی ورثے، سیکھنے، تعلیم اور ایسے مقامات کے بارے میں سمجھنے کی خواہش اور دلچسپی سے متاثر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاپتہ ٹائی ٹن آبدوز کے معاملے میں یہ واضح نہیں ہے کہ انفرادی اور اجتماعی محرکات کیا ہیں۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑی بڑی رقوم کی ادائیگی کے بعد اس طرح کی مشکل جستجو والے مقامات تک رسائی آسان ہے اور یہ کہ لوگ ہمیشہ سچائی کی تلاش اور رازوں پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرنے کے لیے ’خطرناک‘ طرز عمل میں مشغول رہیں گے خاص طور پر وہ لوگ جو موت اور المیے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ان دنوں ممکنہ سیاحوں کی ہر خواہش اور ضرورت کے مطابق پیشکش پر تجربات کی ایک وسیع فہرست موجود ہے۔
نتیجتاً ڈارک ٹوارزم ایک ایسا رجحان ہے جو پیش کردہ تجربات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ منفرد، غرقابی اور متاثر کن تجربات کی بڑھتی ہوئی خواہش کے پیش نظر ترقی کرتا رہے گا۔
تاہم اس صنعت کے لیے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ تعلیمی تحقیق ان سرگرمیوں کے اخلاقی اور غور و فکر کو اجاگر کرنے والے کچھ مشکل مسائل کو بھی عیاں کرتی ہے۔ کلیدی سوالات میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا یہ اخلاقی طور پر قابل قبول ہے کہ المیے کو کموڈیفائی کیا جائے اور ہم تعلیم اور رسائی کو استحصال یا شہوت انگیزی کے خطرے کے ساتھ کیسے متوازن بناتے ہیں۔
اوشن گیٹ میں میں سوار مسافر مارے جا چکے ہیں۔ اس لیے ماہرین تعلیم اور میڈیا اہم سوالات پوچھنا جاری رکھیں گے۔
یہ دریافت کرنا ہے کہ سیاح اندھیرے کی طرف کیوں کھنچے چلے جاتے ہیں؟ اس رجحان کی اخلاقیات کو سمجھنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کرنا ہے کہ مستقبل کے سیاح اور مہم جو ان خطرات کو سمجھیں۔
ڈاکٹر ڈونا پاؤڈے فالماؤتھ یونیورسٹی میں ایکسپیرئنس ڈیزائن (ٹوارزم) کی سینیئر لیکچرر ہیں۔
© The Independent