ماہرین نے ٹائی ٹن آبدوز کے بارے میں خدشات ظاہر کیے تھے: رپورٹ

ٹائی ٹن جیسے بحری جہازوں کے معاملے میں ڈی این وی کی درجہ بندی کا عمل اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ آیا ’بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قواعد‘ کی پیروی کی گئی ہے یا نہی

یہ تصویر اوشن گیٹ ایکسپڈیشنز نے جاری کی ہے جس میں ٹائٹن کو غوطہ خوری کے اشارے کا منتظر دکھایا گیا ہے (تصویر: اوشن گیٹ ایکسپڈیشنز / اے ایف پی)

بحری سفر کی صنعت کے ماہرین اور سابق مسافروں کے مطابق ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب لاپتہ ہونے والی آبدوز ٹائی ٹن اور اس کا عملہ جس مہم پر روانہ ہوا تھا وہ انتہائی خطرناک تھی۔

ماہرین نے برطانوی اخبار دا گارڈین کو بتایا کہ ٹائی ٹن کو اس دباؤ کا سامنا کرنا پڑا جو سطح سمندر سے 13 ہزار فٹ سے زیادہ گہرائی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اسی دباؤ کی وجہ سے اسے زمینی ٹیم سے رابطہ کھونے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔

21 فٹ لمبی آبدوز کے ساتھ اتوار کو تمام رابطے منقطع ہوگئے تھے۔ یہ آبدوز غرقاب ہو جانے والے جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے سیاحوں کو لے کر گئی تھی جو شمالی بحر اوقیانوس کی سطح سے دو میل (تقریباً چار کلومیٹر) نیچے ڈوبا ہوا ہے۔

ٹائی ٹن نامی آبدوز میں عملے کے علاؤہ تین سیاح سوار تھے جن میں برطانوی ارب پتی اور پاکستانی بزنس ٹائیکون اور ان کے صاحبزادے بھی سوار تھے۔

اس سیاحتی مہم میں شرکت کا فی کس کرایہ ڈھائی لاکھ ڈالر تھا جس کا اہتمام اوشن گیٹ ایکسپڈیشنز نامی ادارے نے کیا تھا۔

لاپتہ آبدوز میں سوار سیاحوں میں شہزادہ داؤد اور ان کے صاحبزادے سلیمان داؤد بھی شامل ہیں۔ شہزادہ داؤد اینگرو کے وائس چیئرمین ہیں جو پاکستان کے سب سے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔

اگرچہ یہ کہنا اب بھی قبل از وقت ہے کہ آبدوز کے ساتھ اصل میں کیا ہوا ہے لیکن ماہرین نے مناسب حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کے حوالے سوالات اٹھائے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آبدوز کے پائلٹ سٹاکٹن رش کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اور اوشن گیٹ کے بانی ہیں۔ وہ خود بھی لاپتہ افراد میں شامل ہیں۔ رش کے پاس انجینئرنگ کا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے اور اوشن گیٹ نے کہا ہے کہ آبدوز میں بہت سے حفاظتی فیچرز موجود ہیں۔

کمپنی کے مطابق اس کے باوجود مسافروں کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

پچھلے سال ٹائی ٹن پر سفر کرنے والے مائیک ریس نے بی بی سی کو بتایا: ’آپ ایک اسے فارم پر دستخط کرائے جاتے ہیں جس میں تین مختلف بار موت کا ذکر ہوتا ہے۔‘

ان کے بقول: ’جیسے جیسے وہ آپریٹ کر رہے ہیں وہ سیکھ رہے ہیں۔ چیزیں غلط ہو جاتی ہیں۔ میں نے اس کمپنی کے ساتھ تین بار زیر سمندر سفر کیے ہیں اور آپ تقریباً ہمیشہ مواصلاتی رابطے سے محروم رہتے ہیں۔‘

دوسری جانب منگل کو نیویارک ٹائمز نے 2018 میں اس صنعت کے سٹیک ہولڈرز کی جانب سے لکھا گیا ایک خط شائع کیا جس میں ٹائی ٹن آبدوز میں ممکنہ ’تباہ کن‘ مسائل سے خبردار کیا گیا تھا۔

سمندری انجینیئرز، تکنیکی ماہرین، پالیسی سازوں اور ماہرین تعلیم پر مشتمل ایک صنعتی گروپ میرین ٹیکنالوجی سوسائٹی (ایم ٹی ایس) نے ٹائی ٹن کی تیاری اور اس کے ٹائی ٹینک کے لیے مہمات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور اوشن گیٹ ایکسپڈیشنز کی جانب سے کیے گئے تجرباتی انداز کے خلاف خبردار کیا تھا۔

مسئلہ یہ تھا کہ یہ کسی کو معلوم نہیں کہ ٹائی ٹن کے آزادانہ استعمال پر انڈسٹری کے ریگولیٹرز یا خطرے کا جائزہ لینے والے ادارے کے ذریعے جائزہ لیا گیا تھا یا نہیں۔

میرین ٹیکنالوجی سوسائٹی نے اوشن گیٹ کے اس مارکیٹنگ مواد پر تنقید کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ٹائی ٹن کا ڈیزائن DNV-GL کے حفاظتی معیارات پر پورا اترتا ہے یا یہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ جب کہ بظاہر کمپنی کا اپنی آبدوز کا اسی ادارے سے معائنہ کرانے کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔

ڈی این وی ایک آزاد تنظیم ہے جو آبدوزوں اور بحری جہازوں کو سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے اور ان کے لیے ضوابط جاری کرتی ہے۔

ٹائی ٹن جیسے بحری جہازوں کے معاملے میں ڈی این وی کی درجہ بندی کا عمل اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ آیا ’بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قواعد‘ کی پیروی کی گئی ہے یا نہیں اور اس میں تعمیر اور آپریشن کے مرحلے کے دوران معائنہ بھی شامل ہے۔

اپنے خط میں میرین ٹیکنالوجی سوسائٹی نے لکھا: ’ہماری تجویز ہے کہ کم از کم آپ ایک پروٹو ٹائپ ٹیسٹنگ پروگرام قائم کریں جس کا DNV-GL جائزہ لے اور اس کا مشاہدہ کرے۔‘

اوشن گیٹ کے ترجمان نے نیویارک ٹائمز کی جانب سے رابطہ کرنے پر 2018 کے اس خط پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ