111 سال قبل شمالی بحر اوقیانوس میں ڈوبنے والا ’ناقابل غرقابی‘ بحری جہاز ٹائی ٹینک ایک بار پھر خبروں میں ہے اور اس مرتبہ اس چرچے کی وجہ غرق ہونے والے جہاز کے ملبے کی سیر کی غرض سے پانچ افراد کو زیر آب لے جانے والی اور اپنے سواروں سمیت چار روز سے لاپتہ چھوٹی آبدوز ’ٹائی ٹن‘ ہے۔
جمعرات کو سیاحتی آبدوز میں موجود افراد، جن میں پاکستانی نژاد باپ اور بیٹا بھی شامل تھے، کی اموات کی تصدیق کر دی گئی اور یوں ٹائی ٹینک کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں ایک صدی سے زیادہ عرصے بعد مزید پانچ کا اضافہ ہو گیا۔
اپنے دور کا سب سے بڑا بحری جہاز ٹائی ٹینک 10 اپریل 1912 کو برطانوی شہر ساؤتھیمپٹن سے امریکی شہر نیو یارک کے لیے روانہ ہوا تھا، لیکن 14 اپریل رات 11 بج کر 40 منٹ پر کینیڈا کی بندرگاہ سے محض چند میل کے فاصلے پر برف کے ایک بڑے تودے (آئس برگ) سے ٹکرانے کے نتیجے میں غرق ہو گیا اور سانحے میں ڈیڑھ ہزار کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو گئیں۔
1985 میں دریافت ہونے والے ٹائی ٹینک کے زیرِ آب ملبے کو دیکھنے کے لیے اب تک تقریباً ڈھائی سو افراد چھوٹی آبدوزوں کے ذریعے شمالی بحرہ اوقیانوس کی گہرائیاں ناپ چکے ہیں۔
تاہم یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ٹائی ٹینک کے ملبے کی سیر کے لیے سیاحوں کو لے جانے والی آبدوز لاپتہ ہوئی ہو اور اس میں موجود افراد جانوں سے گئے ہوں۔
یوں ٹائی ٹینک کی تباہی، ٹائی ٹن کے لاپتہ ہونے اور دونوں واقعات میں ہونے والے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے پیچھے شمالی بحر اوقیانوس میں 14 اپریل 1912 کی رات اس ٹکراؤ کے مخصوص مقام پر اس مخصوص برف کے تودے (آئس برگ) کا کردار اہمیت کا حامل ٹھہرتا ہے۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ کیا وہ مخصوص برف کا تودہ اسی مخصوص مقام پر موجود ہے جہاں ٹائی ٹینک اس سے ٹکرایا تھا یا نہیں؟ اور اگر موجود ہے تو کس حالت میں ہے؟ اور اگر نہیں تو کب اور کیسے ختم ہوا؟
آئس برگ کی تصویر
ٹائی ٹینک کو تباہ کرنے والے آئس برگ کی تصویر کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے، جس میں ایک کنیڈین لڑکی برنیس پامر عرف ’برنی‘ کا اہم کردار رہا۔
واشنگٹن میں موجود نیشنل میوزم آف امریکن ہسٹری کے ریکارڈ میں موجود تفصیلات کے مطابق برنی کو دسمبر 1911 میں کرسمس یا جنوری 1912 میں ان کی سالگرہ پر ایک دہائی قبل لانچ ہونے والا ’براؤنی‘ نامی کوڈک کمپنی کا کیمرا تحفے میں ملا تھا۔
اتفاق سے اپریل 1912 میں برنی اپنی والدہ کے ہمراہ بحیرہ روم کی سیر کی غرض سے امریکی شہر نیویارک سے بحری جہاز کارپیتھیا میں روانہ ہوتی ہیں اور ان کا نیا کیمرہ بھی ان کے پاس ہے۔
برنی کے جہاز کارپیتھیا کا سفر بمشکل شروع ہی ہوا تھا کہ 14 اپریل کو ٹائی ٹینک کی ایس او ایس کال موصول ہونے پر جہاز کا رخ حادثے کے مقام کی طرف موڑ دیا گیا اور ٹائی ٹینک کے 700 سے زیادہ مسافروں کو بحر شمالی اوقیانوس کے تھنڈے پانیوں کی نذر ہونے سے بچا لیا گیا۔
جب کارپیتھیا کا عملہ ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچانے میں مصروف تھا برنی اپنے نئے کیمرے سے فوٹوگرافی کا شوق پورا کر رہی تھیں اور انہوں نے وہاں کئی تصاویر بنائیں، جن میں ایک تصویر اس خونی آئس برگ کی بھی تھی جس سے ٹکرا کو ٹائی ٹینک ڈوبا تھا۔
کارپیتھیا زندہ بچ جانے والوں کو لے کر واپس نیویارک پہنچا، جہاں ٹائی ٹینک کے حادثے کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی اور اس لیے کئی صحافیوں نے لنگر انداز ہوتے ہی کارپیتھیا کا رخ کیا۔
نیویارک میں فوٹوگرافی کی ایک نجی ایجنسی ’انڈر ووڈ اینڈ انڈر ووڈ‘ کا ایک گمنام صحافی بھی کارپیتھیا پہنچا اور اتفاق سے اس کی ملاقات برنی سے ہوئی۔
صحافی نے سو ڈالر کے عوض برنی سے وہ تمام تصاویر (صرف کاپیاں بنانے کے لیے) لیں، جو کینیڈین لڑکی نے کارپیتھیا کے ٹائی ٹینک کے قریب پہنچنے پر بنائی تھیں، جن میں خونی آئس برگ کا ایک عکس بھی شامل تھا۔
اور یوں ٹائی ٹینک میں سوار لوگوں کے علاوہ ساری دنیا اس آئس برگ کو دیکھ پائی جو ’ناقابل غرقابی‘ بحری جہاز کی غرقابی کا باعث بنا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئس برگ کتنا بڑا تھا؟
ٹائی ٹینک کی تباہی کا باعث بننے والے آئس برگ کی جسامت سے متعلق مختلف اطلاعات اور معلومات موجود ہیں۔
تاہم ’ٹائی ٹینک فیکٹس‘ نامی ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچ جانے والے مسافروں کے مطابق جہاز سے ٹکرانے کے وقت آئس برگ تقریباً 50 سے 100 فٹ اونچا اور تقریباً 400 فٹ لمبا تھا۔
فرسٹ کیوریاسٹی نامی ادارے کے مطابق کارپیتھیا کے مسافروں، جو کئی گھنٹوں بعد جائے حادثہ پر پہنچے تھے، نے اس کی لمبائی تقریباً دو سو فٹ بتائی۔
عام طور پر آئس برگ کا دس فیصد حصہ پانی کے باہر اور 90 فیصد پانی کے نیچے ہوتا ہے۔
آئس برگ کہاں گیا؟
سائنس دانوں کے خیال میں ٹائی ٹینک سے ٹکرانے والا آئس برگ گرین لینڈ کے جنوب مغربی ساحل پر موجود برف کی ایک بڑی چادر سے وجود میں آیا اور ایک سے تین سال تک پانی میں بہتے رہنے اور اپنے اصلی حجم سے آدھا ہونے کے بعد اس مقام پر پہنچا جہاں اس کی مڈھ بھیڑ ’ناقابل غرقاب‘ ٹائی ٹینک سے ہوئی۔
جس رات ٹائی ٹینک آئس برگ سے ٹکرایا اس وقت شمالی بحر اوقیانوس کے پانی کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بالکل نیچے تھا، جو بدقسمت مسافروں کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔
بعض دوسرے سائنس دانوں کے مطابق ٹکراؤں کی رات اس مقام پر بحر شمالی اوقیانوس کے پانی کا درجہ حرارت تقریباً منفی دو ڈگری سیلسیئس تھا، جو نقطہ انجماد سے نیچے ہونے کے باوجود برفانی تودے کو زیادہ عرصے تک برقرار رکھنے کے لیے بہت زیادہ گرم ہوتا ہے۔
بعض ماہرین کے خیال میں ٹائی ٹینک جیسی دیو ہیکل چیز کے سمندری پانی میں ڈوبنے اور بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے بھی بحر شمالی اوقیانوس میں حادثے کے مخصوص مقام پر پانی کا درجہ حرارت میں اضافے کا امکان موجود ہے، جو آئس برگ کی عمر مزید کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہو گا۔
سمندری سائنسز کے ماہرین کے مطابق شمالی بحر اوقیانوس میں ایک برفانی تودے کی اوسط زندگی دو سے تین سال ہوتی ہے، جس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ ٹائی ٹینک سے ٹکرانے والے آئس برگ کی پیدائش 1910 یا 1911 میں گرین لینڈ کے ساحلوں کے قریب ہوئی ہو گی۔
ماہرین کے خیال میں مذکورہ آئس برگ ٹائی ٹینک کو تباہ کرنے کے ہی سال کے آخر یا زیادہ سے زیادہ اگلے سال (1913) تک ختم ہو گیا ہو گا۔
بعض دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ مذکورہ آئس برگ 1914 کے وسط میں جنگ عظیم اول کے شروع ہونے سے قبل ہی اپنی زندگی کا سائیکل مکمل کرتے ہوئے برف سے پانی میں تبدیل ہو چکا ہو گا۔
آئس برگ ہوتا کیا ہے؟
امریکی ادارے نیشنل اوژن سروس کے مطابق سمندر میں برف کا ایسا تودہ جس کی اونچائی سطح سمندر سے کم از کم 16 فٹ سے زیادہ، موٹائی تقریباً ایک سو سے 164 فٹ کے درمیان اور برف کا رقبہ کم از کم پانچ ہزار 382 مربع فٹ ہو کو آئس برگ کہا جا سکتا ہے۔
سمندروں میں برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی پائے جاتے ہیں جنہیں ’برگی بٹس‘ اور ’گرولرز‘ کہا جاتا ہے، جو مل کر ایک پورا آئس برگ بھی بنا سکتے ہیں۔