پاکستان اور افغانستان کے تعلقات قیام پاکستان سے لے کر اب تک مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں اور مستقبل قریب میں صورتحال میں کسی تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ افغان عوام کے پاکستان کے بارے میں منفی خیالات اچنبھے کا باعث ہیں۔
پاکستانی عوام بجا طور پر حیران ہیں کہ 40 لاکھ کے قریب پناہ گزینوں کو چار دہائیوں تک پناہ دینے کے باوجود ہم افغان عوام کو اپنا گرویدہ کیوں نہیں بنا سکے اور کیوں ان کے دل جیتنے میں ناکام رہے؟
افغان بچے جو پاکستان میں پیدا ہوئے، یہیں اپنی تعلیم مکمل کی اور ہمارے معاشرے میں گھل مل گئے تھے، وہ افغانستان واپس جا کر کیوں پاکستان مخالف رویہ اپنا لیتے ہیں؟ ایک بڑی افغان اکثریت کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور جائیدادیں بھی ہیں لیکن ہم 40 سالہ مہمان داری کے باوجود ان کے دل کیوں نہ موہ سکے؟ کیوں ہمارا پرچم کابل میں پاکستان مخالف جلوسوں میں نذر آتش کیا جاتا ہے؟ کیوں افغانستان میں ہمارے سفارت اور قونصل خانے مسلسل حملوں کی زد میں رہتے ہیں؟
کیوں افغانستان میں ہمارے سماجی بہبود کے منصوبے افغان عوام کے رویے میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے ہیں؟ کیوں افغان سفارت کار جنہوں نے عموماً پاکستان میں کچھ نہ کچھ وقت گزارا ہوتا ہے وہ پاکستان کے بارے میں شکایت آمیز لب و لہجہ رکھتے ہیں؟ موجودہ تقریباً ساری افغان قیادت، جو کبھی نہ کبھی پاکستان میں رہی، ہماری پالیسیوں پر غم و غصے کا اظہار کرتے پائی جاتی ہے۔
پاکستانی عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کیا یہ صلہ ہے ہماری مہمان نوازی اور برسوں کی قربانی کا؟ اس پریشان کن صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ افغان معاشرے کو اچھی طرح سے سمجھا جائے اور افغان عوام سے پاکستان میں روابط اور پالیسی میں خامیوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔
افغان، ترک قوم کی طرح نہیں جنہیں ایک صدی گزرنے کے بعد بھی تحریک خلافت میں برصغیر کے مسلمانوں کا کردار یاد ہے اور وہ اس حمایت کو کبھی نہیں بھولے۔ اس کے مقابلے میں افغان انفرادی دوستی، دشمنی اور ذاتی یا قبیلہ جاتی مفاد پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
اسی وجہ سے افغانوں کے لیے قومی مفاد، گروہی مفادات کے تابع ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے اگر آپ کے کسی پشتون کے ساتھ دوستانہ روابط ہیں تو یہ تاجک، ہزارہ اور ازبک کے لیے اعلان جنگ ہے اور یہی سوچ ہزارہ، ازبک اور تاجک قومیتوں کی ہے۔
ان دشمنیوں کے پس منظر میں افغان جہاد کے وقت ان سب گروہوں کو مطمئن کرنا، اکٹھے رکھنا یا خوش رکھنا قریب قریب ناممکن تھا۔ چونکہ سرحدی قرب کی وجہ سے ہمارا جھکاؤ پشتونوں کی طرف زیادہ رہا تو قدرتی طور پر دوسری قومیں ہماری نیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہیں۔ یہ شک سوویت یونین کے انخلا کے بعد اس وقت مزید مستحکم ہوا جب ہم نے کھل کر پشتون دھڑوں کی حمایت کی۔
جہاد کی حمایت کے دوران یقیناً لبرل اور بائیں بازو کے افغان، جن میں تمام قومیتیں شامل تھیں، ہم سے بجا طور پر ناراض رہے۔ جب ہم نے طالبان کی حمایت شروع کی تو مجاہدین جن میں پشتونوں کی اکثریت تھی وہ بھی آخر کار ہم سے ناراض ہو گئے اور آخر میں جب نائن الیون کے بعد ہم امریکہ کے ساتھ جا ملے تو طالبان بھی ہم سے ناراض ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مختصر یہ کہ سوویت حملے، روس کے انخلا، مجاہدین کے اقتدار، طالبان کی حکومت اور اس کے بعد کے منظر نامے میں پاکستان نے تقریباً تمام افغان قومیتوں اور گروہوں کو وقتاً فوقتاً کامیابی سے ناراض کیا۔
اب ہم عام افغان پناہ گزینوں کی طرف آتے ہیں جو نہ تو کسی جنگ کا حصہ رہے اور نہ ہی کسی گروہ کی کھل کر حمایت کر رہے تھے۔ یہ وہ عام مہاجر تھے جو انتہائی غربت کی حالت میں پناہ گزین کیمپوں میں رہے اور کسی قسم کی سیاسی جدوجہد کا حصہ نہیں بنے۔
ہم نے اس بڑے گروہ کو بھی پاکستان سے ناراض ہونے کی پوری پوری سہولت فراہم کی اور انہیں یہ کہنے کا موقع دیا کہ ہم نے ان کی مدد کر کے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی اداروں اور مختلف ممالک سے اس سلسلے میں بے تحاشا امداد حاصل کی اور اس کا بیشتر حصہ پناہ گزینوں پر خرچ کرنے کے بجائے پاکستان کے اندرونی مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کیا۔
یہ سوچ اس وقت زیادہ زور پکڑنے لگی جب پناہ گزینوں کے ساتھ ہمارے قومی رویے میں تبدیلی آنے لگی۔ شروع میں تو پناہ گزینوں کا کھلے دل سے استقبال کیا گیا لیکن جب آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھنے لگی اور وہ معاشی میدان میں اترے تو اس سے مقامی کاروباری طبقے کو کافی مشکلات اور سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔
افغان محنت کش قوم ہیں اور وہ اس مقابلے میں آگے نظر آئے۔ اس معاشی مسابقت نے مقامی لوگوں اور پناہ گزینوں میں اختلافات کو بڑھایا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس نے اپنا کاروبار چمکایا اور وہ افغان ماجرین جو کے کاروبار میں مصروف تھے، ان کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
افغان پناہ گزینوں کو جیل میں ڈالنا، بلیک میل کرنا اور بھتہ وصول کرنا ایک عام سی بات ہوگئی تھی۔ ان اقدامات سے عام پاکستانیوں اور حکومتی اہلکاروں کے خلاف پناہ گزینوں کی نفرت میں اضافہ ہوا۔ پولیس کی زیادتیوں کے معاملے میں پناہ گزینوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ ان اقدامات سے بچی کھچی گرم جوشی بھی ختم ہو گئی۔ افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے سلسلے میں بھی ان کے ساتھ کافی حد تک ہتک آمیز رویہ رکھا گیا جس نے 40 سال کی محنت پر پانی پھیر دیا۔
یہ رویہ خاص طور پر اس ریاست کی طرف سے ناقابل فہم تھا جو افغانستان کو اپنی جغرافیائی گہرائی سمجھتی تھی۔ اس رویے نے افغانوں کی اس سوچ کو تقویت دی کہ پاکستان نے ان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری مخالف قوتوں نے بھی بہت موثر پروپیگنڈا کیا۔
ٹرانزٹ ٹریڈ میں ہماری طرف سے تقریباً ناجائز مشکلات بھی پاکستان کے خلاف غم و غصے کا سبب بن رہی ہیں۔ بار بار سرحد کی بندش اس غصے اور ناپسندیدگی کو بڑھا رہی ہے۔ ان سب مشکلات کا بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس نے افغانستان میں میڈیا میں بےتحاشا سرمایہ کاری کی اور اس وقت کابل میں ٹی وی چینل ہوں یا اخبار یا ریڈیو، تقریباً تمام معلومات کے ذرائع مل کر پاکستان کے خلاف اس اطلاعاتی جنگ میں شامل ہیں۔
افغانستان میں کوئی بھی دہشت گرد حملہ پاکستان سے ہی جوڑ دیا جاتا ہے اور چونکہ سارا میڈیا یک جان ہوکر پاکستان پر الزام لگا رہا ہوتا ہے تو لوگ اس پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔ یہ میڈیا لوگوں کو یقین دلانے میں کامیاب ہو چکا ہے کہ طالبان ہمارے مکمل زیر اثر ہیں اور وہ دہشت گرد کارروائیاں ہماری کہنے پر کرتے ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے اور ہمیں اس کا موثر طریقے سے جواب دینے کی ضرورت ہے۔
سوویت مداخلت سے پہلے بھی ہمارے افغان حکومت کے ساتھ تعلقات مخدوش تھے مگر عام لوگوں کی سطح پر کافی گرم جوشی پائی جاتی تھی۔ پشاور سے لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں مری جانے کی بجائے کابل کا سفر اختیار کرتے تھے۔ سفر کے لیے ویزا یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور صرف افغان کونسل خانے سے ایک سفری اجازت درکار ہوتی تھی۔ پشاور اور کابل کے درمیان سرکاری جی ٹی ایس بس سروس بھی کافی مفید ثابت ہوتی تھی۔
افغانستان واحد ملک تھا جس نے ہماری اقوام متحدہ میں شمولیت پر اعتراض کیا تھا۔ ڈیورنڈ لائن بھی افغان حکومت نے کبھی قبول نہیں کی اور وہ خیبر پختونخوا کے کچھ حصوں کو افغانستان کا حصہ سمجھتے رہے اور علیحدگی پسند تحریکوں کی مدد بھی کرتے رہے۔
سوویت مداخلت اور پناہ گزینوں کی مدد کے بعد یہ امید تھی کہ ان کے رویے میں بہتری آئے گی مگر ہماری غلط ہینڈلنگ سے اب نہ صرف افغان حکومت ہم سے ناراض ہے بلکہ ایک بہت بڑی افغان عوام کی تعداد بھی غصے میں ہے۔ اگر ہم اپنی سرحدوں پر امن چاہتے ہیں تو ہمیں اس مسئلے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدام شاید کچھ مدد کر سکیں۔
- ہمیں تمام افغان قومیتوں کے ساتھ روابط بڑھانے کی ضرورت ہے اور ان کے اس تصور کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم صرف ایک قومیت کو افغانستان میں حکمران دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
- ہماری طرف سے ویزا اور تجارت پر پابندیاں کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کے لیے سفر میں مشکلات پیدا کرنا ایک سمجھ سے بالاتر پالیسی ہے جنہوں نے پیدائش سے لے کر جوانی تک صرف پاکستان کو اپنی جائے رہائش کے طور پر دیکھا ہے۔ تجارتی تعلقات کی گہرائی عموماً اچھے تعلقات کو مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں مشکلات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ تجارت کو تعلقات پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک انتہائی ناقص اور نقصان دہ حکمت عملی ہے۔
- ہمیں پناہ گزینوں کی واپسی میں سختی کی بجائے ترغیب پر زور دینا چاہیے۔ پناہ گزینوں سے نرمی کے ساتھ پیش آنے سے ان کے دل میں ہماری عزت اور وقار میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ ہمیں افغان دل اور دماغ کو محبت اور پیار سے مسخر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان میں عوامی فلاحی منصوبوں میں سرمایہ کاری بڑھانی چاہیے۔ بلخ میں یونیورسٹی کے قیام کے علاوہ کابل میں مزید ایک اور میڈیکل یا انجینیئرنگ یونیورسٹی کا قیام، صاف پینے کا پانی اور ہسپتالوں جیسے فلاحی ادارے قائم کرنے میں ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ ان فلاحی اداروں سے فائدہ اٹھانے والوں میں پاکستان مخالف سوچ بتدریج کم ہو گی۔ پاکستان میں موجود افغان طالب علموں کے لیے تعلیمی وظیفوں میں بڑے اضافے کی بھی ضرورت ہے۔
- افغان میڈیا میں بھارت نے بےتحاشہ سرمایہ کاری کی ہے اور اسے پاکستان کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ ہمارے مفادات کے دفاع کے لیے اشد ضروری ہے کہ ہم بھی اس شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کریں اور پاکستان کے دفاع کے لیے افغانستان میں ایک مضبوط آواز پیدا کریں۔
افغانستان سے تعلقات میں بہتری اور افغان عوام میں پاکستان کے لیے مثبت احساسات اور جذبات پیدا کرنا ایک مشکل اور طویل سفر ہے مگر اس کی ابتدا ہمارے علاقائی مفادات کے لیے انتہائی ضروری ہے۔