افغان طالبان کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ذریعے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے افغان طالبان اور امریکہ کے مابین امن مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟
قظر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے والی افغان طالبان کی ٹیم کے ترجمان سہیل شاہین نے اںڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ’کشمیر کا مسئلہ ہمارے اور امریکہ کے مابین مذاکرات پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’کشمیر ایک الگ مسئلہ ہے اور افغانستان اور امن مذاکرات ایک الگ ایشو ہے۔ ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور انہیں آزاد شہریوں کی طرح مکمل حقوق دیے جانے چاہییں۔‘
افغان طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر اور امریکہ کے مابین گذشتہ کچھ عرصے سے مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں۔ مذاکرات کا آخری یعنی آٹھواں دور ایک روز قبل کسی حتمی معاہدے کے انتہائی قریب پہنچنے کے اشاروں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔
دوسری جانب بھارت کی جانب سے اپنے زیرِانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں مزید تلخی آنا شروع ہوگئی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ بھارت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ ان کے خیال میں اس کے لیے پاکستان طالبان پر اپنا اثر استعمال کرسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مطالبے میں پیش پیش دینی سیاسی جماعت ’جماعت اسلامی پاکستان‘ ہے، جس کے ایک رہنما امیر العظیم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکہ، افغانستان اور پاکستان میں بے تحاشہ نقصان اٹھانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یکطرفہ اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتا۔‘ انہوں نے افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ ہندوستان پر زور ڈالے کہ کشمیر میں وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اس خطے کا ناقابل تلافی نقصان کرے گا۔‘
بھارت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں کچھ حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس مسئلے سے افغانستان میں امن عامہ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
وال سٹریٹ جرنل سمیت مختلف اخبارات میں اس حوالے سے تجزیے اور تبصرے بھی شائع کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے افغان امور کے ماہر طاہر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے جب کشمیر کے مسئلے کو افغانستان کے امن مذاکرات سے جوڑا گیا تو اس پر سوشل میڈیا سمیت مختلف حلقوں میں باتیں شروع ہوگئیں۔‘
طاہر خان سمجھتے ہیں کہ ’یہ دونوں مسئلے الگ نوعیت کے ہیں۔ افغانستان گذشتہ کئی دہائیوں سے بد امنی کا شکار ہے، اس لیے ان دونوں مسئلوں کو الگ طریقے سے حل کرنا چاہیے۔‘
امن مذاکرات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات نہایت اہم موڑ پر ہیں۔ بہت سی چیزوں پر اتفاق ہوگیا ہے لیکن اب تکنیکی چیزوں پر باتیں ہو رہی ہیں، اس لیے ان مذاکرات کو کامیاب کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ اس مسئلے کو کشمیر سے جوڑا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کے لیے پاکستان بہت اہم ہے اور امریکی بھی چاہتے ہیں کہ امن مذاکرات میں پاکستان کا کردار ہو کیونکہ افغانستان سے امریکی انخلا کے لیے واشنگٹن کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہوگی۔‘
مبصرین کے مطابق افغانستان سے 2020 تک فوجی انخلا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے اہم نکتہ بن چکا ہے۔ ان کے خیال میں ایسی صورتحال میں پاکستان امریکہ کے لیے اس وقت بھارت کی نسبت زیادہ اہم حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
افغان تجزیہ کار عمر صدر کہتے ہیں کہ ’پاکستان عمران خان کے امریکہ کے کامیاب دورے کے بعد کشمیر اور افغان مسائل پر بارگین کی حالت میں ہے۔ اب وہ اسے کتنی ہوشیاری سے استعمال کرتا ہے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔‘
افغان طالبان نے تاہم ایک الگ بیان میں واضح کیا کہ کشمیر کو افغانستان کے ساتھ نہ جوڑا جائے کیونکہ افغانستان کا مسئلہ مختلف ہے اور نہ ہی افغانستان کو دونوں ممالک کے درمیان میدان جنگ بنایا جائے۔
ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے پاکستان اور بھارت کو ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کرنے کی درخواست کی جن سے تشدد کو ہوا ملے، خطے کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو اور کشمیروں کے حقوق غصب ہوں۔ انہوں نے فریقین، اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی، اقوام متحدہ اور دیگر بااثر اداروں سے کے وہ کشمیر میں عدم استحکام کو روکنے میں کردار ادا کریں۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت کی جانب سے کشمیر پر اقدامات کی ایک بڑی وجہ یہ خوف بھی ہوسکتا ہے کہ 90 کی دہائی میں پاکستان نواز طالبان کے دورِ حکومت میں پاکستان مشرقی سرحد پر زیادہ توجہ دینے لگا تھا۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی بھارت اپنے لیے انتہائی نقصان دے سمجھ رہا ہے اور کشمیر کی حیثیت کے خاتمے سے وہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی سوچ رکھ سکتا ہے۔
پلوامہ حملے کے بعد بھی افغانستان میں پاکستان کے سفیر نے واضح کیا تھا کہ اگر بھارت نے کوئی سخت ردعمل ظاہر کیا تو اس کے افغان مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جبکہ پانچ اگست کے اعلان سے چند روز قبل اسی قسم کے خدشات کا اظہار پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کیا تھا۔