1990کی دہائی میں کابل سے نقل مکانی کرنے والے 61 سالہ توریال شیرزئی کے پانچ بچے پاکستان میں پیدا ہوئے، یہیں پل کر جوان ہوئے اور اب یہاں کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کے جی۔ نائین سیکٹر میں رہائش پذیر توریال کی اپنی مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے وہ یہاں مقیم ہیں، لیکن ان کے بچوں کا مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ ان کے لیے پاکستان چھوڑنا یا افغانستان واپس جانا ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ۔
ان کے24 سالہ بیٹےغوث کا ، جو اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن کر رہے ہیں ، کہنا ہے کہ وہ افغانستان کبھی بھی جانا پسند نہیں کریں گے۔’اگر پاکستان میں حالات سازگار نہیں رہے تو پھر میں پاکستانیوں کی طرح امریکہ، کینیڈا یا یورپ میں رہنے کو ترجیح دوں گا۔‘
توریال کی ایک بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا منتقل ہو چکی ہیں اور ایک بیٹا، پاکستان میں اُن کے لئےغیر واضح صورتحال کی وجہ سے، یورپ جانے کا سوچ رہاہے۔
خود توریال بھی پناہ گزینوں کی پاکستان میں غیریقینی صورتحال سے پریشان ہیں۔ ملکی قوانین کے تحت نہ تو وہ کاروبار اپنے نام کرسکتے ہیں اور نہ گا ڑی کے قانونی مالک بن سکتے ہیں۔
کاروبار یا گاڑی کو نقصان پہنچنے کی صورت میں قانوناً کسی بھی معاوضے کے دعویدار بھی نہیں ہوسکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر وہ وہاں کاروبار منتقل نہیں کرسکتے۔ وہ پاکستان میں اپنے بچوں کی پڑھائی کا سلسلہ بھی نہیں روکنا چاہتے۔
پاکستان میں رہنے والے افغان پناہ گزینوں میں سے اکثریت کے مسائل توریال اور ان کے 8 افراد پر مبنی کنبے سے زیادہ شدید ہیں کیونکہ ان کی بڑی تعداد افلاس کا شکار ہے لیکن توریال کے بچوں کی طرح پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان پناہ گزین بچے یہیں رہنے پر خوش ہیں۔
ان کے لیے افغانستان ایک اجنبی ملک ہے، جس کے متعلق وہ زیادہ نہیں جانتے اوران میں سے کم لوگوں نےوہ ملک دیکھا ہے۔ اسلام آباد، خیبر پختونخوا، کراچی، کوئٹہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں پناہ گزین نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ان کی اکثریت پاکستان کی شہریت کی خواہش مند ہے یا کم از کم یہاں مستقل رہائش چاہتی ہے۔
ہری پور کے پنیاں کیمپ میں رہائش پذیر 34 سالہ سعداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر پیدا ہوئے اور یہیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہلال احمر پاکستان میں ملازمت اختیار کرلی۔ ’میرا جی کیوں کر چاہے گا کہ میں باقی زندگی ایک اجنبی ملک افغانستان میں گزاروں۔ پاکستان اگر ہمیں شہریت نہیں دیتا تو کم از کم مستقل رہائش کی اجازت تو دے‘۔
سعداللہ کے مطابق ان کا خاندان افغانستان کے جوزجان علاقے سے پاکستان میں پناہ گزین بن کر آیا لیکن وہ اب خود کو افغان سے زیادہ ایک پاکستانی سمجھتے ہیں۔
برسر روزگار اورپاکستان میں بسنے والے باقی مہاجرین کی نسبت قدرے بہترزندگی گزارنے والے سعداللہ کی یہاں پر مستقل رہائش کی خواہش تو منطقی نظر آتی ہے، لیکن وہ مہاجرین جن کو یہاں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں، وہ بھی پاکستان چھوڑنا نہیں چاہتے۔
دارالحکومت اسلام آباد میں کشمیر ہائی وے سے متصل آئی۔ 12 سیکٹر میں واقع پناہ گزینوں کی آبادی میں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں اور نہ ہی وہاں سکول یا ہسپتال کی سہولیات ہیں۔
بعض اتنے افلاس زدہ ہیں کہ ان کے خاندان بھیک مانگ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان پناہ گزینوں کی اکثریت بھی اپنے ملک واپس جانا نہیں چاہتی ۔
اس افغان آبادی کے 40 سالہ رہائشی شیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا وہ اپنی شعوری زندگی میں کبھی افغانستان نہیں گئے ۔ ان کا مزید کہنا تھا جو لوگ بھی افغانستان واپس منتقل ہو تے ہیں ان میں سے چند ہی اپنے فیصلے پر مطمئن ہوتے ہیں۔ اس سیکٹر میں مقیم افغان آبادی کی اکثریتی رائے یہی ہے کہ پاکستان میں وقت گزارنا بہتر ہے کیونکہ یہاں کم از کم امن تو ہے۔
اِس وقت پاکستان میں تقریباً 24 لاکھ اندراج شدہ و غیراندراج شدہ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے اعداد وشمار کے مطابق ان میں سے 14 لاکھ افغان مہاجرین باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں، جن میں 74 فیصد (تقریباً 10 لاکھ 36 ہزار) ان افغانوں کی دوسری یا تیسری نسل ہے جنھوں نے روسی مداخلت یا پھر 1989 میں روس کی پسپائی کے بعد صورتحال کی وجہ سے نقل مکانی کی تھی، اور ان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی۔
ماہرین ان لاکھوں پناہ گزین نوجوانوں کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
حقوق انسانی کی سرگرم کارکن فرزانہ باری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا افغان پناہ گزینوں کے پاکستان میں طویل قیام کے بعد ’ہمیں ان کو شہریت کاحق دینے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ وہ بچے جو پاکستان میں پیدا ہوئے ان کا مستقبل محفوظ بنانا بھی بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے‘۔ ان کے مطابق اگر پاکستان کی حکومت اس حوالے سے کوئی مستقل حل نہیں نکالتی تو افغان پناہ گزینوں کے بچوں کا مسئلہ ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے سال کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کے وہ بچے جو پاکستان میں پیدا ہوئے، انہیں پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ دیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایک بچہ امریکہ کی سرزمین پر پیدا ہوتا ہے تو اس کو امریکہ کا پاسپورٹ مل جاتا ہے اور یہی اکثر ممالک کا دستور ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’ آخر ہم کیوں ان لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں۔‘
بعض لوگوں کے خیال میں پاکستان نے یہ پناہ گزین افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے طور پر بھی استعمال کیے، جیسے کہ گزشتہ دنوں کابل سے ناراضی پرانہیں چھ ماہ میں نکل جانے کا حکم دیا گیا، بعد میں اس فیصلے پر حکومت پاکستان نے نظر ثانی کر لی۔
افغان مہاجرین کی شہریت کے معاملے پر سرکاری موقف جاننے کیلئے جب وزارت داخلہ سے رابطہ کیا گیا تو اس کے ترجمان عبدالعزیز عقیلی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’یہ (افغان مہاجرین کو شہریت دینے کا) معاملہ بین الوزارتی سطح پر موجودہ قوانین و ضوابط کی روشنی میں زیر غور ہے‘۔
تاہم، دوسری جانب افغان حکومت بھی افغان پناہ گزینوں کی نئی نسل کو پاکستانی شہریت ملنے کی تجویز کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔ جب انڈپینڈنٹ اردو نے شہریت کے مسئلے پر افغان حکومت کا موقف جاننے کے لیے پاکستان میں تعینات افغانستان کے نائب سفیر زرتشت شمس سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ افغانستان تمام افغانوں کا ملک ہے اور حالات بہتر ہونے پرتمام افغان اپنے ملک واپس جانا پسند کریں گے۔تاہم ،سرکاری موقف کے برعکس نوجوان افغان مہاجرین پاکستان کو ترجیح دےر ہےہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں افغانیوں کو شہریت دینے کا معاملہ پیچیدہ ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ماہر قانون احمر ہلال صوفی کے مطابق پاکستان کے موجودہ قوانین کے تحت پناہ گزینوں کو شہریت نہیں دی جاسکتی ۔ ان کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی شہریت سے متعلق نئے قوانین متعارف کرانے کے بعد ہی افغان مہاجرین کو شہریت دینے پر بات ہوسکتی ہے۔
لیکن اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے سربراہ امتیاز گل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ شہریت کے مسئلے میں رکاوٹ قانون نہیں بلکہ سیاسی آمادگی ہے۔ ’اگر شہریت ممکن نہیں تو ان کو انسانیت کی بنیاد پر مستقل رہائش کی اجازت اور بنیادی حقوق تو دیے جاسکتے ہیں۔‘
افغانستان کی غیر یقینی صورتحال مہاجرین کی مکمل واپسی میں رکاوٹ
کچھ حلقے امریکہ کی افغان طالبان سے بات چیت اور افغانستان میں امن کے متعلق خدشات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق افغان پناہ گزین حکومت پاکستان کی طرف سے ان کے قیام کے عبوری معیاد کے نوٹیفیکیشن کو نفسیاتی طور پر سر پر لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح دیکھتے ہیں۔ تازہ ترین نوٹیفیکشن پناہ گزینوں کی پاکستان میں قیام کی مدت میں اگلے مہینے تک توسیع دیتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ افغانستان اب بھی غیریقینی صورتحال سے گزر رہا ہے اور پناہ گزینوں کی جلد واپسی مشکل نظر آتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے 2016کے بعد افغان مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی میں مسلسل کمی رپورٹ کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2002سے لے کراب تک کوئی 44 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین رضا کارانہ طور پر اپنے ملک واپس گئے ہیں ،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 2016 سے ان کی واپس جانے کی تعداد میں سالانہ کمی واقع ہورہی ہے۔
امریکہ کے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے خصوصی انسپکٹر جنرل یعنی سیگار کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان حکومت 44 فیصد افغانستان پر کنٹرول کھو چکی ہے اور تقریباً ایک تہائی علاقے پر لڑائی ابھی جاری ہے۔
افغانوں کیلئے زمین تنگ ہوچکی
37 سالہ صالح محمد اپنے خاندان کے ہمراہ پچھلے سال صوابی کے گاؤں اسمٰعیلہ سے ، جہاں وہ گزشتہ تین دہائیوں سے ایک کیمپ میں رہائش پذیر تھے، افغانستان کے صوبہ کنڑ میں واقع اپنے آبائی گاؤں منتقل ہوئے۔ لیکن وہ جلد ہی پاکستان واپس آگئے۔ صالح محمد کے چھ بچوں اور بیوی کی سفری دستاویزات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے اہل خانہ کوسرحد کے اس پار ہی چھوڑنا پڑا۔ ان کے مطابق افغانستان جانا ایک غلطی تھی، نہ تو وہاں ان کے بچوں کے لیے مناسب سکول ہیں اور نہ ہی صحت کی بنیادی سہولیات، جبکہ وہاں کی پولیس اور انتظامیہ بھی کم تعلیم اور زیادہ تربیت یافتہ نہیں۔
صالح محمد نے ٹیلیفون پر بھرائی آواز میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’ میری بچی کا ہاتھ کسی حادثے میں ٹوٹ گیا تھا اور اس کے علاج کے لیے مجھے دو ماہ افغانستان میں در بدر پھرنا پڑا، تب کہیں جا کر میرے علاقے سے بہت دور کابل میں اس کا علاج ممکن ہوسکا۔ اس کے علاوہ بیروزگاری سے بھی میری حالت ابتر ہوگئی تھی، اسی لیے مجھے واپس آنا پڑا‘۔
پاکستان میں مہاجرین کے لئے شاید حالات افغانستان کی نسبت قدرے بہتر ہوں، لیکن یہاں بھی ان کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ مبصرین کے خیال میں ان کو بنیادی ضروریات کی فراہمی انسانی حقوق میں شامل ہیں۔ مستقل رہائش یا شہریت کے معاملے سے قطع نظر، پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان میں بھی صاف پانی جیسےبنیادی انسانی حقوق میسر نہیں۔
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عقب میں کچی آبادی میں افغان پناہ گزین بچوں کو پینے کے لیے جوہڑ سے آلودہ پانی بھرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان بچوں کو نہ تو معیاری تعلیم کے سہولیات میسر ہیں اور نہ صحت کی بنیادی ضروریات۔ یہ ایک باقاعدہ کیمپ نہیں ہے، تاہم ہری پور کے علاقے پنیاں کا کیمپ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی زیرنگرانی قائم ہے لیکن یہاں بھی سکول اور ہسپتال کی سہولیات آبادی کے حساب سے ناکافی ہیں۔
یہاں پناہ گزینوں کے لیے بجلی کی سہولت تو موجود ہے لیکن اس کا انتظام اتنا ناقص ہے کہ انہیں گھریلو کے بجائے کمرشل بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ عدالت عظمٰی کے حکم کے باوجود کیمپ میں بجلی صارفین کے لیے حالات جوں کے توں ہیں۔اس کیمپ کے ایک مسجد کے پیش امام مولانا عبدالحلیم کے مطابق درخواستوں کے باوجود ان کے بجلی اور دیگرمسائل حل نہیں کیے جا رہے اور حکام تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کو شکایت ہے کہ سب کچھ ان کو پاکستان کی جانب سے شناختی کارڈ کا اجرا کرنے کے باوجود ہو رہا ہے۔
جب اس معاملے پرسرکاری موقف جاننے کے لیے اسلام آباد میں کمشنر برائے افغان پناہ گزین سلیم خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس صورتحال سے باخبر ہیں اور جلد ہی ہری پور میں رہائش پذیر پناہ گزینوں کے مسائل متعلقہ محکموں کے سامنے رکھیں گے تاکہ کوئی حل نکالا جاسکے۔
ذرائع ابلاغ پاکستان میں مہاجرین کے لئے ایک واضح پالیسی کی عدم موجودگی پر بھی تنقید کر رہے ہیں-تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پالیسی بننے اور افغان مہاجرین کا کوئی مستقل حل نکالنے کے لئے وقت درکار ہے، اس ضمن میں مخالف سیاسی جماعتوں سمیت کئی کرداروں کے درمیان اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو پناہ گزینوں کی بنیادی سہولیات اور انھیں غربت سے نکالنے کے لئے فوری جامع حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ۔
سکیورٹی خدشات
فرزانہ باری نے خدشے ظاہر کیا ہےکہ اگر پناہ گزینوں کے مسائل کے انسانی پہلو کو سامنے نہ رکھا گیا تو اس سے پاکستان کے لیے معاشی مسائل کے علاوہ سکیورٹی خطرات بھی پیدا ہوسکتے ہیں ۔
2014 میں پشاور آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملے کے بعد کی صورتحال اور افغان مہاجرین پرپولیس کے دباؤ اور پھر موجودہ حکومت کا مہاجرین کو سہولیات یا شہریت دینے کا وعدہ ، یہ تمام وہ عوامل ہیں جو پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو تذبذب کا شکار کررہے ہیں۔ ریاست پاکستان ،افغان پناہ گزینوں کو دہشت گرد تنظیموں کیلئے نرسری سمجھتی ہے ۔
مہاجرین کی اکثریت پاکستان میں یا تو بیروزگار ہے یا روزانہ کی اجرت پر مزدوری کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رہائش پذیر افغان پناہ گزینوں کی آبادی کا ایک تہائی خواندہ ہے اور 14 لاکھ میں صرف 22.5 فیصد معاشی طور پر فعال ہیں۔
ان کے بچوں کی اکثریت کو رسمی تعلیم تک رسائی میسر نہیں اور یہ مسئلہ خطرناک حد تک بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے ترجمان کے مطابق پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آبادی میں سالانہ 3.4 فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے جو دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادیوں میں سے ایک ہے۔
مہاجرین کیمپوں کی کچی گلیوں میں کیچڑ اور نکاسی آب کے ناقص انتظامات کے علاوہ بوسیدہ مکانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغان پناہ گزینوں کو قومی و بین الاقوامی سطح پر تقریباً نظر انداز کیا جارہا ہے۔
آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعد پاکستان میں افغان مہاجرین کے لئےحالات مخدوش ہوگئے تھے ۔ ان کی پولیس کے ہاتھوں ہراساں ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں اوربعد ازاں حکام کی جانب سے ان کے لئے بینک میں کھاتہ کھلوانے کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، جس کی وجہ سے ان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔
نئی پاکستانی حکومت کی بدلتی پالیسی
افغان مہاجرین کو شہریت دینے کے حوالے سے تا حال کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہیں آئی، تا ہم وزیراعظم نے افغان مہاجرین کی سہولت کے لئے انھیں بینک میں کھاتے کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔
بینک دولت پاکستان کے ترجمان عابد قمر نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وزیر اعظم کے احکامات کے بعد 28فروری کو تمام بینکوں کو ہدایت نامہ جاری کیا گیاکہ افغان مہاجرین کو کھاتے کھولنے کی اجازت دی جائے۔حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں یہ واحد قدم تھا جو عملاً سامنے آیا اور اس کو کئی حلقوں میں مثبت انداز سے دیکھا جارہا ہے۔ وزیر اعظم کے اس حکم کے بعد امید کی جارہی ہے کہ حکومت مہاجرین کے مسائل سلجھانے میں سنجیدہ ہے۔
مولانا عبدالحلیم نے، جو چاول کے کاروبار سے وابستہ ہیں، انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا وزیراعظم کی ہدایات سے پہلے انھیں کاروباری لین دین کے سلسلے میں پیسے بھیجنے کے لئے بینک میں کسی اجنبی شخص کے شناختی کارڈ کا سہارا لینا پڑتا تھا ۔ جو ان کےسر مائے کے لئے ایک غیر محفوظ طریقہ تھا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہےکہ مہاجرین کو صرف بینک کی سہولت فراہم کرنے سے ان کےمسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید اقدامات پر غور کرناہوگا۔ سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹروقار مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ پناہ گزینوں کو سہولیات دینے سے ملک کو فائدہ ہوگا اور وہ پاکستانی معیشت پر بوجھ بننے کے بجائے یہاں کی ترقی میں حصہ لے سکیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانیوں کو بینک کی سہولت دینے سے پیسہ گردش میں آ ئے گاجس سے پاکستانی معیشت کو فائدہ ہوگا اور ملک کی آمدن یا ٹیکس کی مد میں ہونے والی کمائی میں اضافہ ہوگا۔