انگلینڈ کے کرکٹ سسٹم میں نسل پرستی اور تعصب کے واقعات پر ایک آزادانہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے نسل پرستی کے تسلسل کے ساتھ واقعات پر غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔
انڈپینڈنٹ کمیشن برائے مساوات نے 317 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں انگلینڈ کے کرکٹ کے نظام میں نسلی اور صنفی تعصب کی نشاندہی کی گئی ہے۔
یہ کمیشن ان الزامات کے بعد قائم کیا گیا تھا جو کچھ کھلاڑیوں نے عائد کیے تھے جن میں پاکستانی نژاد عظیم رفیق بھی شامل تھے۔
کمیشن نے برطانیہ میں مقیم 4000 لوگوں سے رائے لے کر یہ رپورٹ مرتب کی ہے جسے ’کرکٹ کو آئینہ دکھانے‘ کا نام دیا گیا ہے۔
یہ کمیشن مارچ 2021 میں ایک امریکی سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کے پولیس کی تحویل میں مرنے کے بعد قائم ہوا تھا جس کا مقصد ’بلیک لائیو میٹرز‘ کے پس منظر کو واضح کرنا تھا لیکن کمیشن کا دائرہ اس وقت مزید وسیع ہوگیا جب انگلینڈ میں نسل پرستی کے واقعات منظر عام پر آئے اور کمیشن نے انگلینڈ کے کرکٹ سسٹم پر بھی تحقیقات شروع کردیں۔
انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے سربراہ رچرڈ تھامسن نے کمیشن کی سربراہ سنڈی بٹس کے نام ایک خط میں ان تمام کھلاڑیوں سےغیر مشروط اور بلا تردد معافی مانگی ہے ’جو سسٹم میں نظر انداز کیے گئے یا پھر انھیں یہ محسوس ہوا کہ وہ اس سسٹم کا حصہ نہیں ہیں۔‘
رچرڈ تھامسن نے معذرتی الفاظ کے ساتھ اپنے عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ اس سسٹم کو دوبارہ تعمیر کیا جائے جس میں سب کے پاس مساوی مواقع ہوں اور کسی سے کوئی زیادتی نہ ہو۔‘
رپورٹ کے مندرجات
کمیشن کی سربراہ سنڈی بٹ نے دیباچے میں تحریر کیا کہ ’یہ رپورٹ ان تمام حلقوں کو پریشان کر دے گی جو اس سے متعلق ہیں۔‘
رپورٹ کے ایک اختصاریہ میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے باعث سسٹم داغدار ہو چکا ہے اور تعصب بہت گہرائی تک سرایت کر چکا ہے۔
کمیشن نے ای سی بی کی تعریف کی کہ جس نے پر مرحلے پر تعاون کیا اور ہر متعلقہ شخص تک رسائی دی۔
مذکورہ کمیشن نے 4000 سے زائد افراد سے بات کی اور نسل پرستی کے واقعات کو کریدا۔
اس کے بعد انگلش بورڈ کو 44 نکات پر مبنی سفارشات پیش کی گئیں جن سے ’متوازن اور غیر متعصب نظام پروان چڑھ سکے گا۔‘
کمیشن نے ایسے کھلاڑی جو گوری رنگت نہیں رکھتے ہیں، ان کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ ’ان کے ساتھ کسی نہ کسی مرحلے پر نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔‘
’وہ کھلاڑی جن کے آباؤاجداد انگلینڈ کے نہیں ہیں انھیں بھی نفرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘
کمیشن نے خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ امتیاز کا ذکر کیا ہے۔ ’صنفی امتیاز کے ساتھ انہیں کھیل کا معاوضہ مردوں سے کم دیا جاتا ہے جبکہ انہیں لارڈز جیسے تاریخی گراؤنڈ میں کھیلنے نہیں دیا جاتا جس سے ان کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ان کی کرکٹ کو کم درجہ کھیل سمجھا جاتا ہے۔‘
کمیشن نے غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات رپورٹ کرتے ہوئے سفارش کی ہے کہ انھیں مقامی کھلاڑی کے برابر حقوق دیے جائیں۔
کمیشن نے ایک ایسے ڈائریکٹر کی تعیناتی پر زور دیا ہے جو مساوات اور باہمی تعلقات پر مسلسل نظر رکھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیشن نے شکایات کے اندراج اور سدباب کے لیے ایک واضح اور سادہ تر نظام پر زور دیا ہے جس میں ہر شخص کو رسائی ہو اور وہ نگرانی بھی کر سکے۔
کمیشن نے زور دیا ہے کہ ’ای سی بی اعلانیہ طور پر عوام سے معذرت کرے کہ اس کی کوتاہی اور سستی کے باعث نسل پرستی پروان چڑھی اور تعصب میں اضافہ ہوا ہے۔‘
کمیشن نے گزشتہ برسوں میں نسل پرستی کے واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں سب سے اہم یارک شائر کاؤنٹی کے سابق کپتان عظیم رفیق کے واقعات کا انکشاف تھا اور انھیں جیوری کے سامنے اندوہناک قرار دیا گیا تھا۔ عظیم رفیق کے الزامات کے بعد کاؤنٹی نے تحقیقات کروائی تھیں اور کاؤنٹی کے کئی عہدیدار مستعفی ہو گئے تھے۔
انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے سربراہ نے اس رپورٹ کی کاپی ملتے ہی غیر مشروط اور عدم اعتراض معافی مانگ لی تھی۔
کرکٹ کے حلقوں نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے جس کا مرکزی دیباچہ انگلینڈ کے سابق وزیراعظم جان میجر نے تحریر کیا ہے۔ پانچ رکنی کمیشن کی رپورٹ پر جان میجر نے اسے سسٹم میں موجود عیوب اور کوتاہیوں کو دور کرنے میں مددگار قرار دیا ہے۔ وہ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’کرکٹ ایک شاندار کھیل ہے جو وہ برطانیہ آنے والے تارکین وطن کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔‘