پاکستانی سنیما 2019 میں بالی وڈ فلموں پر عائد پابندی کے بعد سے مشکلات کا شکار رہا ہے لیکن کرونا کی عالمی وبا نے تو جیسے اس کی تقدیر پر سیاہی پھیر دی ہو۔
2021 کے آخر میں سنیما گھر دوبارہ کھلے مگر 2022 کا ابتدائی حصہ فلموں کے لیے زیادہ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ اکتوبر 2022 میں ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی بے مثال کامیابی نے فلم سازوں کے دل میں امید کی شمع روشن کی عیدالفطر 2023 میں یہ شعلہ بھی مدھم پڑ گیا۔
اب عید الاضحیٰ کا اہم موقع ہے، پاکستان اور انڈیا میں تو فلم ساز اس موقعے کی مناسبت سے فلموں کی تیاری بہت پہلے سے شروع کر دیتے ہیں، تو کیا گہرے اندھیرے میں کوئی امید کا دیا جل رہا ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
رواں برس پاکستان میں عید الاضحیٰ کے موقعے پر ایک دو نہیں پوری چھ پاکستانی اردو فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں سنیماؤں کی محدود تعداد کے پیشِ نظر یہ تعداد بہت زیادہ ہے جس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ جمعہ 30 جون سے ایک بڑی ہالی وڈ فلم ’انڈیانا جونز اینڈ دی ڈائل آف ڈیسٹینی‘ بھی پاکستان بھر میں سنیما کی زینت بن جائے گی۔ ایسے میں پاکستانی فلموں کے لیے سکرین کی تعداد مزید کم ہو جائے گی۔
ذیل میں ہم ان چھ فلموں کا ایک خاکہ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں تاکہ آپ فیصلہ کرسکیں کہ اس عید پر آپ کون کون سی فلمیں دیکھنا چاہیں گے۔
’تیری میری کہانیاں‘
یہ ایک فلم نہیں بلکہ تین فلموں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں تین فلمیں ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، ان کے مصنف الگ ہیں، ہدایتکار اور اداکار بھی۔
ان تینوں کا مختصر سا تعارف پیشِ خدمت ہے؛
- ’(سا) جِن محل‘
نبیل قریشی کی یہ فلم ایک ’ہارر کامیڈی‘ ہے جس میں انہوں نے اپنے انداز میں ایک سماجی مسئلے کی جانب ہلکے پھلکے انداز میں بات کی ہے۔ اس فلم میں حرا اور مانی پہلی مرتبہ سنیما سکرین پر ایک ساتھ نظر آئیں گے۔ مانی اگرچہ کئی فلمیں کرچکے ہیں مگر یہ حرا کی پہلی فلم ہے۔ ’جن محل‘ کو علی عباس نقوی اور باسط نقوی نے تحریر کیا ہے۔ یہ فلم انتہائی مربوط انداز میں بنی ہوئی ہے اور اس میں قہقہے لگانے اور آنکھیں نم کرنے کا مکمل موقع ملے گا۔
- ’پسوڑی‘
یہ فلم مرینہ خان کا فلمی ہدایت کاری میں پہلا قدم ہے اور ان کے ہی مخصوص انداز میں یہ شادی بیاہ اور اس سے منسلک دلچسپ مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ مرکزی کرداروں میں شہریار منوّر، رمشا خان ہیں جبکہ معاون اداکاروں میں بابر علی اور لیلیٰ واسطی شامل ہیں۔
مرینہ خان کے انداز میں ہلکے پھلکے چٹکلوں سے بھرپور یہ فلم محبت اور ایثار کا بہترین پیغام دیتی ہے۔ اس میں دو نغمے بھی ہیں جو دیکھنے والوں کو محظوظ کرتے ہیں۔
- ’ایک سو تئیسواں‘
ندیم بیگ کی ہدایت کاری میں خلیل الرحمان قمر کے قلم سے نکلی اس کہانی کے مرکزی کردار مہوش حیات اور وہاج علی ہیں جبکہ زاہد احمد اور آمنہ الیاس نے بھی اہم کردار ادا کیے ہیں۔ ریل کے سفر کے دوران جنم لینے والی اس عمیق کہانی کا ہر جملہ اہم اور معنیٰ کے لحاظ سے دل چھو لیتا ہے۔ اس فلم میں وہ سب کچھ ہے جو ایک طاقتور سنیما سے توقع کی جاتی ہے۔
ہم اپنے قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایک فلم میں ایک سے زیادہ کہانیوں کو یکجا کرکے پیش کیا گیا ہو۔ 50 برس پہلے ایک فلم ’چاند سورج‘ تھی جس میں ندیم اور وحید مراد نے کام کیا تھا لیکن یہ تجربہ اس وقت کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔
موجودہ فلم پاکستانی سنیما کا ایک اہم تجربہ ہے جو اگر کامیاب رہا تو شاید کئی فلمساز اس جانب توجہ دینا شروع کردیں۔
اس فلم کو سنیما میں عید پر سب سے زیادہ جگہ دی جا رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سنیما گھر بھی اس فلم سے امید لگا کر بیٹھے ہیں۔
’اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ‘
اس عید پر یہ فلم اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ اینی میٹڈ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تاریخ کی پہلی تھری ڈی فیچر فلم ہے جو پاکستانی سنیما کی تاریخ میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ 2018 میں ریلیز ہونے والی فلم ’اللہ یار، دا لیجنڈ آف مارخور‘ کا سیکوئل ہے جسے شائقین نے بہت سراہا تھا۔ اس فلم کے مصنف، ہدایتکار اور پروڈیوسر عزیر ظہیر خان ہیں اور اس میں اداکار علی ظفر، ہمایوں سعید، بشریٰ انصاری، اقرا عزیز، نادیہ جمیل، اظفر جعفری سمیت انعم زیدی جیسے نامور فنکاروں نے صدا کاری کی ہے۔
اس فلم کا موضوع اللہ یار نام کا ایک لڑکا ہے جو اپنے والد کو بچانے کی خاطر ایک دوسری دنیا کا رُخ کرتا ہے۔ اینیمیٹڈ فلموں کے شائقین کو اس فلم کا بے صبری سے انتظار ہے۔
اس فلم کو ’تیری میری کہانیاں‘ کے تقریباً برابر ہی شوز مل رہے ہیں اور سنیما گھروں اس سے کافی زیادہ توقعات ہیں۔
’بے بی لیشیس‘
اس فلم کا نام اردو میں لکھنا بہت عجیب لگ رہا ہے لیکن مصنف، ہدایت کار عیسٰی خان کے مطابق یہ فلم بالکل مختلف عوام کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ عیسٰی خان اس سے پیشتر اداکاری کرچکے ہیں اور انہوں نے کچھ اشتہارات بھی بنائے ہیں۔ فلم کی کہانی ایک نوجوان کی ہے جسے اس کی گرل فرینڈ نے چھوڑ دیا ہے اور اب وہ دیوانہ وار اسے واپس حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہا ہے۔
یہ فلم کئی سال سے بن رہی تھی اور جب یہ شروع ہوئی تھی تو اس وقت شہروز اور سائرہ رشتہ ازدواج میں بندھے ہوئے تھے بعد ازاں ان کا یہ رشتہ ختم ہو گیا۔
عیسٰی خان کا کہنا ہے کہ یہ فلم اصل حالات و واقعات پر مبنی ہے، ٹریلر سے فلم ایک اچھی پروڈکشن معلوم ہوتی ہے۔ فلم کی مرکزی کاسٹ میں سائرہ یوسف اور شہروز سبزواری ہیں۔ ان کے علاوہ اداکارہ شہزین راحت، عامر قریشی، عادی امجد، سبینہ سید، عدنان جعفر، لیلیٰ واسطی اور مانی شامل ہیں۔
’وی آئی پی‘
یہ کہانی ہے ایک عام شخص کی جسے طاقتور افراد اپنے مفاد کی خاطر شہر کا مئیر بناتے ہیں تاکہ وہ ان کے ہاتھ میں کھلونا بنا رہے تاہم وہ پھر انہی کے خلاف ہوجاتا ہے۔
اس فلم کے ذریعے زیک اپنے کرئیر کا آغاز کر رہے ہیں جبکہ نمرہ شاہد کی یہ دوسری فلم ہے۔.
اس فلم کے ذریعے رانا کامران نے ہدایت کاری کی دنیا میں قدم رکھا ہے جو اس سے پہلے کئی کامیاب فلموں کی سنیماٹوگرافی کر چکے ہیں اس لیے اس فلم میں کم از کم فلمی انداز ضرور دیکھنے کو ملے گا۔ رانا کامران ہی کی بدولت اس فلم کے معاون اداکاروں میں احتشام الدین، سلیم معراج، سیفی حسن، عرفان موتی والا اور اکبر الاسلام جیسے نامور افراد شامل ہیں۔
لیکن مرکزی کردار کیونکہ غیر معروف اداکار کررہے ہیں اس لیے یہ پہلو اس فلم کے لیے زیادہ توجہ حاصل کرنے میں مانع ہے تاہم سنیما ہاؤسز نے اس فلم کو مداری اور آر پار سے زیادہ شوز ہی دیے ہیں۔
’مداری‘
یہ فلم کسی بڑے پروڈکشن ہاؤس کے تحت نہیں بنائی گئی۔ یہ کئی نئے فلمسازوں کی مشترکہ جدوجہد ہے جو کافی محدود وسائل اور کم بجٹ میں تیار کی گئی ہے۔
فلم کی کہانی کو سیاسی تھرلر قرار دیا جا رہا ہے جہاں ایک نوجوان اپنے والد کی موت کا بدلہ لینے کی دھن میں آکر منفی دھندے میں ملوث ہوجاتا ہے۔
اس فلم کی کہانی سراج السالکین نے تحریر کی ہے اور ہدایات بھی انہوں نے خود ہی دی ہیں۔ فلم کے دیگر اداکاروں میں حماد صدیق، عامر نقوی اور پارس مسرور شامل ہیں۔
مداری کو سنیماؤں میں زیادہ جگہ نہیں مل سکی ہے اور متعدد سنیماؤں میں اس کے دو تین شوز ہی لگائے گئے ہیں۔
’آر پار‘
اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر آرپار ہی آسکتی تھی۔ اس فلم کی ریلیز کا اعلان عیدالاضحٰی سے صرف دو ہفتے قبل کیا گیا تھا۔
اس فلم کی خاص بات کہ فلم سٹار معمر رانا کی بیٹی رائنا کی یہ پہلی فلم ہے جبکہ معمر رانا خود بھی اس فلم میں ایک انڈین پنجابی سکھ کا کردار کر رہے ہیں۔
فلم کے دیگر اداکاروں میں شامل خان، ارم اختر، احمد حسن، پلوشہ خان اور مصنف مشہود قادری شامل ہیں۔
اس فلم کی ہدایات کاری کے فرائض سلیم داد نے انجام دیے ہیں۔ سنیما کی جانب سے اس فلم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جا رہی اور بیشتر سنیماؤں میں اس کے اکا دکا شوز ہی ہیں۔