عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) نے جمعرات کو ایک پریس ریلیز میں بتایا کہ اس کے اور پاکستان کے درمیان تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے کے لیے سٹاف سطح کا معاہدہ ہوگیا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر نو ماہ میں دیے جائیں گے اور یہ فنڈنگ پاکستان کی توقعات سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر کے مطابق ’نیا سٹینڈ بائی معاہدہ پاکستان کے 2019 کے توسیعی سہولت پروگرام کے تحت حکام کی کوششوں پر استوار ہے، جو جون کے آخر میں ختم ہورہا ہے۔‘
آئی ایم ایف معاہدہ گذشتہ کئی ماہ سے تاخیر کا شکار تھا، اور اس دوران ملک میں روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں کافی اضافہ ہوا۔
معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ بڑھایا ہے۔
اسی طرح آئی ایم ایف کے مطالبے پر بعض اشیا پر سبسڈی کو بھی کم یا ختم کیا گیا ہے جس میں بجلی بھی شامل ہے۔
شکیل احمد رامی ماہر اقتصادیات ہیں اور چین کی ہیبی یونیورسٹی میں وزٹنگ ریسرچ فیلو ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس معاہدے سے مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کا غریب طبقہ مستفید ہوسکتا ہے کیونکہ پہلے سے آئی ایم ایف کے مطالبے پر ضروری اشیا پر سبسڈی ہٹائی گئی ہے۔‘
شکیل رامی کا مزید کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح مزید بڑھا دی گئی ہے جبکہ بجلی بھی مہنگی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 215 ارب روپے کے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جو مختلف مد میں ہیں اور ان میں پیٹرول پر لیوی بڑھانے کی بھی تجویز ہے جس سے پیٹرول مزید مہنگا ہوسکتا ہے۔
’مسئلہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف متوسط اور غریب طبقے پر ٹیکسز بڑھانے کی بات تو کرتا ہے لیکن اس ادارے کے فوکس میں ایلیٹ لوگ شامل نہیں کہ ان پر کتنے ٹیکسز بڑھا دیا گیا ہے۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا معاہدے کے بعد ڈالر ریٹ میں کمی ممکن ہے؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بھی آئی ایم ایف ہی کا مطالبہ ہے کہ ڈالر ریٹ کو مارکیٹ کے حساب سے چھوڑا جائے تو معاہدے کے بعد ڈالر ریٹ تھوڑا نیچے آ سکتا ہے لیکن اس کے لیے حکومت کو محنت کی ضرورت ہے۔‘
شکیل رامی نے بتایا ’حکومت کو مارکیٹ پر چیک رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈالر ریٹ 250 روپے تک ہونا چاہیے، لیکن مارکیٹ میں اس سے اوپر چل رہا ہے تو حکومت اگر اس پر چیک رکھے تو ڈالر ریٹ تھوڑا کم ہوسکتا ہے۔‘
پاکستان انسٹی ٹیوٹ اف ڈویلیپمنٹ اکنامکس میں پروفیسر اور ماہر معاشیات ڈاکٹر ناصر اقبال کا کہنا تھا کہ ’معاہدے کے تحت ملنے والے تین ارب ڈالر میں مزید ایک دو مہینے لگے گے۔‘
’(یہ معاہدہ) عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ ملک کی معیشت کو اتنا فائدہ دے سکتا ہے کہ اس سے زر مبادلہ کے ذخائر سٹیبل ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا، ’ذرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہونے کے علاوہ اس معاہدے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں مل سکتا اور نہ اس سے مہنگائی میں کمی آسکتی ہے، مہنگائی میں کمی کا واحد حل شرح سود کو بڑھانا ہے جو پہلے سے پاکستان میں 22 فیصد ہے۔‘
اسی شرح سود کی وجہ سے ڈاکٹر ناصر کے مطابق مارکیٹ میں پہلے سے بحران موجود ہے اور مہنگائی کم کرنے کے لیے اگر اس کو زیادہ بڑھایا جائے گا تو مارکیٹ اور کاروباری طبقہ مزید متاثر ہو گا۔
امریکہ کے ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا میں ڈائریکٹر اور سیاسی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ معاہدے کے بعد پاکستان کو طے شدہ امداد سے زیادہ پیسے ملیں گے، تاہم معاہدے کے تحت کفایت شعاری کے وعدے کرنے سے پاکستانی عوام پر مزید بوجھ پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے بعد حکومت کو قلیل مدتی اقدامات اٹھانے ہوں گے جیسے کہ ٹیکسز کا بوجھ بڑھانا، تاہم یہ قدم طویل مدت میں پاکستان کو فائدہ دے گا۔
انہوں نے بتایا، ‘قلیل مدت اقدامات سے مستقبل میں پاکستان میں مہنگائی جیسے مسائل کم ہوں گے۔’
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پہلے سے عوام میں غیر مقبول ہے اور معاہدے کے بعد عوام پر مزید بوجھ پڑے گا، تو اس کا حکومت کو مزید سیاسی نقصان ہوگا۔
تاہم مائیکل کے مطابق آئی ایم ایف سے اگر اس کامیاب مذاکرات کے دورس نتائج اور زیادہ امداد ملے گی، تو اس کا آئندہ عام انتخابات میں حکمران اتحاد کو فائدہ مل سکتا ہے۔
کیا معاہدے سے ڈالر ریٹ نیچے آ سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ناصر اقبال نے بتایا کہ ڈالر ریٹ نیچے تو نہیں آئے گا بلکہ مزید بڑھ سکتا ہے کیونکہ برآمدات و درآمدات بڑھیں گے تو ڈالر ریٹ پر اثر ضرور پڑے گا اور آئی ایم ایف معاہدے میں یہ واضح ہے کہ ڈالر ریٹ مارکیٹ کے مطابق ہو گا اور اس میں حکومت کی جانب سے کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔
اسی طرح پیٹرول کی قیمتوں کے حوالے سے ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ ’پیٹرول کی قیمتوں کا بھی اس معاہدے کے ساتھ تعلق نہیں اور اس کا تعلق عالمی مارکیٹ اور ڈالر ریٹ سے ہے تو اگر ڈالر ریٹ روپے کے مقابلے میں کم ہوگا، تو پیٹرول کی قیمتیں کم ہوں گی۔‘
’اب بڑا چیلنج یہی ہو گا کہ انتخابات سے قبل اس پر موجودہ حکومت کتنا عمل کرے گی اور اس سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ انتخابات کے بعد جو حکومت بنے گی، تو وہ اس معاہدے پر کتنا عمل کرتی ہے۔ُ