بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اربوں ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے درکار پالیسی وعدوں کو پورا کرنے کی جانب ’خاطر خواہ پیش رفت‘ کی ہے۔
امریکی ویب سائٹ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایسٹر پریز روئز نے 6.5 ارب ڈالر مالیت کا پروگرام میں پیش رفت کے لیے ایک اہم سنگ میل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’چند باقی ماندہ نکات پر بات چیت مکمل ہونے کے بعد عملے کی سطح کا معاہدہ کیا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس بات کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے کہ حکام کو اپنے پالیسی ایجنڈے پر عمل درآمد میں مدد کرنے کے لیے کافی مالی اعانت موجود ہے۔‘
پاکستان کو جون تک تین ارب ڈالر کا قرض چکانا ہے جبکہ چار ارب ڈالر کی منتقلی متوقع ہے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک اپنے ان وعدوں کو حتمی شکل دیں جو انہوں نے اسلام آباد کو اپنے فنڈز بڑھانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے کیے ہیں۔
اسحاق ڈار نے جمعرات کو پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ اسی وجہ سے پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت نمٹانے میں تاخیر ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ ممالک نے آئی ایم ایف کے جائزے کے دوران پاکستان کی معاونت کے وعدے کیے تھے اور وہ ’ان سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ان وعدوں کو حقیقت میں پورا کریں اور عملی جامہ پہنائیں۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات پورے کر لیے ہیں اور ٹیکس، توانائی کی قیمتوں اور شرح سود میں اضافے سمیت دیگر سخت اقدامات بھی کیے ہیں، تاہم وزیر خزانہ نے ان ممالک کا نام نہیں لیا جنہوں نے پاکستان کے ساتھ وعدے کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں برس فروری میں آئی ایم ایف کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، جس کے دوران اسلام آباد میں 10 روز تک مذاکرات ہوئے تھے لیکن قرض کی بحالی پر کوئی اتفاق نہیں ہو ا تھا۔
اس بات چیت کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے معاشی اصلاحات کے لیے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس نافذ کرنے کی منظوری بھی پارلیمان سے حاصل کی لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود تاحال آئی ایم ایف سے آئندہ قسط کے اجرا کی منظوری نہیں ہو سکی۔
معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے پاکستان دوست ممالک سے بھی رابطے میں ہے تاکہ وہاں سے نرم شرائط پر قرض یا امداد حاصل کر کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرے۔
دوسری جانب اس حوالے سے بھی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان قرض کی بحالی کے لیے نویں جائزہ مذاکرات میں نیوکلیئر پروگرام پر بھی بات ہو رہی ہے۔
تاہم آئی ایم ایف کی نمائندہ ایسٹر پریز روئز نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد سے مذاکرات معاشی مسائل کے حل اور مالی استحکام پر ہو رہے ہیں اور ان کے ملکی جوہری پروگرام سے تعلق جوڑنے کی قیاس آرائیوں میں کوئی سچائی یا حقیقت نہیں۔
گذشتہ روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ ’نہ تو آئی ایم ایف اور نہ ہی کسی دوسرے ملک نے ہماری جوہری صلاحیت کے حوالے سے کوئی شرط عائد کی اور نہ ہی پاکستان سے کوئی مطالبہ کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے میں تاخیر خالصتاً تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہے۔ ’ہم آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ اسے جلد از جلدحتمی شکل دی جا سکے۔‘