اندھی نفرتوں نے ہماری سیاست اور صحافت کو اتنا آلودہ کر دیا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا معاملہ رہ گیا ہو جس پر سب متفق ہوں پائیں۔
سیاسی رہنماؤں کی اندھی تقلید میں اب تو کوئی ملک کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ ’یا تو میرا وزیراعظم آئے گا اور یا ملک کو نہیں چلنے دیا جائے گا‘ اس سوچ پر عمل نے ملکی سیاست اور معیشت دونوں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔
یہ ملک رہے گا تو آپ اس میں سیاست اور حکمرانی کر سکیں گے ورنہ خدا نہ کرے، ہمارے ہمسایہ ممالک ہی ہمیں کھا جائیں گے۔
اس لمبی تمہید باندھنے کی وجہ پاکستان کے آئی ایم ایف سے ہونے والے سٹاف لیول معاہدے پر بے تکی تنقید ہے۔ جب آپ کو پتہ ہے کہ معاہدہ نہ ہونے سے ملکی معیشت تقریباً ڈیفالٹ ہو چکی تھی اور بغیر اس کے دوسرا کوئی چارہ ہی نہیں تھا تو پھر کیا ملک کو دیوالیہ ہونے دے دیا جاتا؟
گھر میں آگ لگی ہے تو وہ عارضی طور پر ہی صحیح لیکن بجھ جائے تو سکون کا سانس لینا پڑتا ہے لیکن گھر کے کچھ باسی اس پر ماتم کدہ ہوں تو اسے کیا نام دیا جائے؟ اسحق ڈار کی معاشی پالیسیوں کے بڑے ناقد مفتاح اسماعیل ہوں یا پھر معاشی امور کے ماہرین، ان کی اکثریت آئی ایم ایف سے سٹاف لیول سمجھوتے کو ایک کینسر زدہ معیشت کے لیے امید کی ایک کرن سمجھتی ہے۔
یہ بات 100 فیصد درست ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے اور حکومت کی معاشی کارکرگی کا دفاع کرنا بھی مشکل ہے لیکن اگر آپ کے مریض کی حالت اتنی بگڑ چکی ہے کہ وینٹی لیٹر کے بغیر بچنا ناممکن ہے تو کیا اسے مرنے دیا جائے یا کہ وینٹی لیٹر پر ڈال کر اسے بچانے کی کوشش کی جائے؟
یہی منطق ٹوئٹر پر بیان کی تو ایک مخصوص پارٹی کے فالوورز اور فالور نما صحافیوں نے کئی دن تک ہزاروں غلیظ گالیوں سے نوازا، لیکن ایسے ہتھکنڈوں سے اگر حق اور سچ بات کرنا بند ہو سکتی تو عمران خان کے دور اقتدار میں 90 فیصد صحافی کام ہی چھوڑ چکے ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک دفعہ پھر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ پاکستان کا کوئی سیاسی رہنما پاکستان سے زیادہ اہم تھا، نہ ہو گا، کسی بھی لیڈر کی اندھی تقلید میں اس ملک کے نقصان پر خوش ہونا کہاں کی سیاست ہے؟
میں کسی کی بھی حب الوطنی پر سوال اٹھانا گناہ عظیم سمجھتا ہوں لیکن پھر اس سوال کا جواب قارئین پر ہی چھوڑ دیتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہو جاتا تو کیا عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن جاتے؟
اوورسیز پاکستانیوں کا نام دے کر دھمکایا جاتا ہے کہ وہ زرمبادلہ بھجوانا بند کر دیں گے، اپنی جائیدادیں بیچ کر پیسہ باہر لے جائیں گے۔ چلیں مان لیا کہ ایسا ہو بھی گیا تو کیا یہ اسحق ڈار اور شہباز شریف کا نقصان ہے یا کہ آپ کے میرے اور ہمارے بچوں کے پاکستان کا نقصان ہے؟
ویسے تو کالم سابق وزیراعظم نوازشریف سے گذشتہ ہفتے لندن میں ہونے والی ملاقات پر لکھنا تھا لیکن یہ موضوع اس لیے چنا کہ اندھی تقلید میں پاکستان کے نقصان پر خوش ہونے والوں میں سے شاید چند ایک کی ہی آنکھیں کھل جائیں۔
London! pic.twitter.com/6g6UHRnnyt
— Adil Shahzeb (@adilshahzeb) June 23, 2023
بہرحال موجودہ حالات میں اس ملاقات کا سرسری ذکر کرنا ضروری بھی ہے۔ نوازشریف صاحب مطمئن تھے کہ انتخابات ہو جائیں گے لیکن حالات کا ذکر کرتے ہوئے وہ غیر مطمئن نظر آئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ’سیاسی منصوبوں‘ پر ہمیشہ کے لیے فل سٹاپ نہ لگے ملک کا آگے چلنا بہت ہی مشکل ہو گا۔
’پراجیکٹ عمران خان‘ کے غیرسیاسی کرداروں کو سزا دینے پر تفصیلی بات ہوئی لیکن کیا ایسا ہو پائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اس وقت توجہ طلب معاملہ یہی کہ معیشت کو اب آگے کیسے سنبھالا جائے وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب حکومت نے چند ہفتوں میں رخصت کو جانا ہے، پھر آگے انتخابات بھی ہونے ہیں جس میں ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوتی ہے۔
لیکن کم از کم ایسے معاشی فیصلے کرتے وقت اب سیاسی جماعتوں کو کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے، پاکستان کے پاس یہ آپشن بچا ہی نہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے معاشی لینڈ مائنز بچھا دیں۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا چیلنج یہ ہے کہ الیکشن میں جاتے ہوئے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا ہے جو کہ ملک افورڈ نہیں کر سکتا جبکہ عمران خان صاحب کا چیلنج یہ ہے کہ جو تحریک انصاف بچ گئی ہے اسے بچا کر انتخابات کی کیسے کی جائے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔