جنوبی ایشیا کی تلخ سیاست میں خاص طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کا استعمال نہ صرف دو طرفہ تعلقات بلکہ اندرونی سیاست میں بھی ہوتا رہا ہے۔
دہشت گردی کی سہولت کاری کو الزام کے طور پر سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندو قوم پرستوں کی حکومت نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے مذہبی گروہوں اور سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی ہے۔
اسی طرح پاکستان میں جاری سیاسی بحران کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں اور کارکنوں کی جانب سے نو مئی کو فوجی املاک، تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات کو دہشت گردی سے نتھی کیا جا رہا ہے۔
اس تحریر میں ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح جنوبی ایشیا میں سیاسی مخالفین کا استحصال کرنے کے لیے دہشت گردی کے الزام کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
انڈیا اور پاکستان نائن الیون سے قبل بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ناواقف نہیں تھے۔ 1990 کی دہائی میں روس اور افغان جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان میں فرقہ وارانہ حملے جیش محمد اور لشکر طیبہ کی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دراندازی ایک عام سی بات تھی۔
تاہم، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز نے پہلے سے ہی علاقائی سلامتی کے پیچیدہ صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
دہشت گردی کی شدت اور موجودگی دونوں میں اضافہ ہوا، جس سے پاکستان انڈیا تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ درحقیقت، جیش محمد کے 2002 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی تھی۔
2008 میں ممبئی حملے کے بعد پاک انڈیا تعلقات تاریکیوں سے نہ نکل سکے۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام اور دہشت گردی کو اپنے فائدے کے طور پر استعمال کیا اور مختلف وجوہات کی بنا پر اس کا شکار ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان نے انڈیا پر الزام لگایا کہ وہ اسے غیر مستحکم کرنے کے لیے مبینہ طور پر مختلف بلوچ باغی گروپوں اور پاکستانی طالبان کے کچھ دھڑوں کو افغانستان کے راستے مالی مدد سمیت دیگر امداد فراہم کر رہا ہے۔
دوسری طرف انڈین بیانیے کے مطابق پاکستان کی کشمیر میں مداخلت اور افغانستان میں موجود انڈیا کے قونصل خانوں کو پاکستان میں بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
مقامی سطح پر دونوں ممالک نے دہشت گردی کے بیانیے اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کو حقیقی اختلاف رائے، ریاست مخالف محاذ اور سول سوسائٹی کے گروپوں اور اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا۔ جیسا کہ بی جے پی کی ہندو قوم پرست حکومت نے محبت اور زمینی جہاد جیسے دقیانوسی تصورات کے خلاف قانون سازی کی ہے تاکہ انڈین مسلم کمیونٹی کو بنیاد پرستوں کے طور پر دبانے اور شیطانی شکل دی جائے۔
’لو جہاد‘ ایک ہندوتوا نظریہ کی من گھڑت تھیوری ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ انڈین مسلم کمیونٹی ہندو لڑکیوں کو بہکانے اور انہیں اسلام قبول کرنے کے لیے شادی کے وعدوں کے ذریعے رومانوی تعلقات استوار کرتی ہے۔
اسی طرح ’کورونا جہاد‘ کی اصطلاح انڈیا میں کووڈ کی وبا پھوٹنے کے فوراً بعد گھڑی گئی۔ نئی دہلی کے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع کرونا وبا پھیلانے کے ایک اہم ذرائع میں سے تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی جے پی کے اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان نے عوامی آمدرفت کو معطل کر دیا، جس سے تبلیغی جماعت کے ارکان کی ایک بڑی تعداد نظام الدین مرکز میں پھنس کر رہ گئی جس کے نتیجے میں کووڈ 19 کے کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اسی عرصے کے دوران ہندو برادری کی تقریبات اور تقاریب ہو رہی تھیں، لیکن تبلیغی جماعت کو اس کے سالانہ اجتماع کے انعقاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا مخصوص کیا گیا اور اسے ’کورونا جہاد‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔
اسی طرح پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ سابق فاٹا کے علاقے سے تعلق رکھنے والی پشتون برادری کی ایک غیرمتشدد سماجی حقوق کی تحریک ہے۔
پی ٹی ایم پشتون برادری کے خلاف ریاستی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے ریلیوں، احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا اہتمام کرتی ہے۔ پی ٹی ایم دہشت گردی کے الزام میں سکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر اٹھائے گئے لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔
پاکستان نے پی ٹی ایم کے کھلے احتجاج اور ریاست مخالف بیانیے کا جواب دہشت گردی کے مختلف قوانین کے تحت اس کے رہنماؤں کے گرد گھیرا تنگ کرکے اور انہیں انڈین اور افغان پراکسی کے طور پر پیش کیا، جو ملک کے خلاف نام نہاد ہائبرڈ جنگ میں مصروف ہیں۔
سیاسی مخالفین اور منحرف گروہوں کے خلاف دہشت گردی کی سہولت کاری کے الزام کو ہتھیار کے طور پر استعمال سے نہ صرف جمہوری طرز سیاست کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوششوں پر بھی منفی اثر پڑے گا۔
ممکنہ طور پر یہ عمل پرامن سیاسی گروہوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر سکتا ہے۔
(مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں ریسرچ فیلو ہیں۔ )
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔