’چپ وار‘ کے الزامات: چین نے اہم دھاتوں کی برآمدات روک دیں

اگلے ماہ سے برآمد کنندگان کو گیلیم اور جرمینیئم کی فراہمی کے لیے خصوصی لائسنس کی ضرورت ہوگی۔ یہ دھاتیں سیمی کنڈکٹرز، مواصلاتی آلات اور میزائل سسٹم کا اہم جزو ہیں۔

کمپیوٹر کے سینٹرل پراسسینگ یونٹ کی ایک سیمی کنڈکٹر چپ امریکی اور چینی جھنڈوں پر رکھی ہوئی ہیں یہ تصویر 17 فروری 2023 کو لی گئی تھی (روئٹرز)

چین نے امریکہ اور یورپ کے ساتھ بڑھتی ہوئی ’چِپ وار‘ کے پیش نظر کمپیوٹر سازی میں استعمال ہونے والی دو اہم دھاتوں کی درآمد پر گرفت سخت کر دی ہے۔

اگلے ماہ سے برآمد کنندگان کو گیلیم اور جرمینیئم کی فراہمی کے لیے خصوصی لائسنس کی ضرورت ہوگی۔ یہ دھاتیں سیمی کنڈکٹرز، مواصلاتی آلات اور میزائل سسٹم کا اہم جزو ہیں۔

چین کی وزارت تجارت نے پیر کو مذکورہ دھاتوں کی برآمد پر گرفت سخت کرنے کا اعلان کیا جس میں اس نے مزید کوئی وجہ بتائے بغیر کہا کہ ’قومی سلامتی اور مفادات‘ کے تحفظ کے لیے ایسی پابندی کی ضرورت تھی۔

یہ اقدام امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن کے بیجنگ کے اعلیٰ سطح کے اس دورے سے چند روز قبل سامنے آیا ہے جسے صدر جو بائیڈن کی جانب سے دو عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو مسلسل تنازعات کا شکار ہیں۔

چین کے اس اقدام کو امریکہ کی جانب سے حالیہ مہینوں میں جدید مائیکرو پروسیسرز تک چینی رسائی کو محدود کرنے کی کوششوں کے جوابی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

سیمی کنڈکٹرز کی صنعت جو موبائل فون سے لے کر فوجی استعمال کے آلات تک، کام میں آنے والا مختلف قسم کا سامان تیار کرتی ہے چین اور امریکہ کے درمیان تنازع کا مرکز بن کر رہ گئی ہے۔

امریکہ چین کی ٹیکنالوجی تک رسائی کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے جس کے بارے میں وہ سمجھتا ہے کہ اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں سپر کمپیوٹنگ اور مصنوعی ذہانت میں استعمال ہونے والی چپس بھی شامل ہیں۔

گذشتہ سال اکتوبر میں اعلان کردہ امریکی پالیسی تحت چین کو چپس برآمد کرنے والی کمپنیوں کے لیے لائسنس لینا ضروری چاہے وہ کہیں سے بھی آئی ہوں۔

امریکہ کے بعد نیدرلینڈز نے حال ہی میں اپنی ’جدید ترین‘ مائیکرو چپ ٹیکنالوجی کی برآمدات کو محدود کرنے کے پہلے فیصلے کے بعد سیمی کنڈکٹر بنانے میں استعمال ہونے والے بعض آلات کی برآمد کو محدود کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔

جاپان بھی چین کو مخصوص کمپیوٹر چپ تیار کرنے والے آلات کی برآمد کو محدود کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے کہا کہ امریکہ ’اپنی اجارہ داری کو برقرار رکھنے ‘ کے لیے برآمدات کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کا غلط استعمال کر رہا ہے اور ’چِپ وار‘ شروع کر کے عالمی سطح پر رسد کے نظام میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین مذکورہ دھاتیں بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس حیثیت چین کے تازہ اقدام کا عالمی سطح پر چپ کی تیاری اور ترسیل پر بھی کافی اثر پڑ سکتا ہے۔

جنوبی کوریا کی وزارت صنعت کے ایک اہلکار نے منگل کو کہا کہ چین کے اس اقدام سے قلیل مدتی ’محدود اثر‘ پڑے گا۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے تائیوان کی چپ ساز تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی کے ریٹائرڈ بانی مورس چانگ نے کہا کہ عالمگیریت پیچھے ہٹ رہی ہے۔

چانگ جنہوں نے دنیا کے سب سے بڑی چپ ساز کمپنی کی بنیاد رکھی، نے کہا کہ عالمگیریت کی نئی تعریف کی گئی ہے کہ کاروبار کو صرف اس شرط پر سرحد کے پار جانے کی اجازت دی جائے کہ اگر اس طرح کے تبادلے سے قومی سلامتی، تکنیکی بالادستی اور اقتصادی قیادت کو نقصان نہ پہنچے۔

چین کی جانب سے پابندی کے اعلان کے بعد چانگ نے تائیوان کے دارالحکومت تائی پے میں ایک بزنس فورم پر سوال اٹھایا کہ ’لیکن کیا اسے اب بھی عالمگیریت سمجھا جا سکتا ہے؟‘

دریں اثنا امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے صورت حال سے واقف افراد کا حوالہ دیتے ہوئے منگل کو رپورٹ کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی چینی کمپنیوں کی امریکی کلاؤڈ کمپیوٹنگ سروسز تک رسائی کو محدود کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

اخبار کے مطابق اگر نیا ضابطہ اپنایا گیا تو امریکی کلاؤڈ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں ایمازون اور مائیکروسافٹ کو چینی صارفین کو مصنوعی ذہانت کی جدید چپس استعمال کرنے والی کلاؤڈ کمپیوٹنگ خدمات فراہم کرنے سے پہلے ممکنہ طور پر امریکی حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت ہوگی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی