دوپٹہ، چنری، اوڑھنی، چادر، یا کچھ بھی کہہ لیں اپنی زبان اور علاقے کے مطابق، مقصد اس کا عمومی طور پر عورت کے آگے دیوار بنے رہنے کا ہے۔ ایسی دیوار جو سامنے والے (مردوں) کو مجبور کردے کہ وہ صرف آپ کا چہرہ دیکھیں یا پھر سوچتے رہیں کہ اس کپڑے کی اس پتلی دیوار کے نیچے قدرت کے کون سے راز پنہاں ہیں۔
در حقیقت، لفظ دوپٹہ ہندی کا ہے جس کے معنی دو طرفہ پٹے کے ہیں۔ ارے نہیں نہیں، کتے کا پٹہ نہیں، دوپٹہ!
تاریخ بتاتی ہے، دوپٹے تب سے ہیں جب سے تہذیب و تمدن کا قیام ہے۔ یوں لگتا ہے تہذیب کا تمام دھیان عورت کے نقوش پر تھا کہ کیسے اس کو رنگ برنگے، جھلملاتے، چمکتے ہوئے کپڑے میں لپیٹ دیں۔
محترمہ فاطمہ جناح ہوں یا بیگم رعنا لیاقت علی، یا پھر بینظر بھٹو۔ ان تمام خواتین نے دوپٹے کو معاشرتی شرم و حیا کو لحاظ میں رکھتے ہوئے پہنا تھا۔
ایک دور تھا جب پی ٹی وی کی خبرنامہ پڑھنے والی خواتین بھی سر پر دوپٹہ نہیں لیتی تھیں لیکن پھر سیاست بدلی، ماحول بدلا، تو حلیے بھی بدل گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوال پھر وہی کہ آخر دوپٹے کی ضرورت ہی کیوں؟ کیا سامنے والے کی نظر صرف چہرے تک نہیں روک سکتی؟ کیا وہ بلاوجہ خلق خدا کو گھورنا یا ناپنا بند نہیں کر سکتا؟
عمومی طور پر بر صغیر میں لڑکیوں کا دوپٹہ اسکول کے وی یا سیش کی صورت میں متعارف ہوتا ہے اور جلد ہی دوپٹے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ دوپٹہ دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ لڑکی نے بلوغت میں قدم رکھ دیا ہے اور اب لگامیں کھینچنے کا وقت آگیا ہے۔ اس لگام کا پہلا پٹہ، دوپٹہ ہے۔
ذاتی طور پر میں نے آٹھویں جماعت سے باہر جانے پر دوپٹہ لینا شروع کیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوپٹہ اور میں دو قلب یک جان ہو گئے۔
میں نے کچھ سال مشنری سکول میں گزارے ہیں، جو کہ باقی مشنری کی طرح صرف لڑکیوں کا تھا۔ واحد مرد ذات ایک اکاؤنٹنٹ کی تھی جو دور پرے دفتر میں بیٹھتا تھا۔
ایک روز میں سیڑھیوں پر دوستوں کے ساتھ بیٹھی تھی اور میرا دوپٹہ برابر میں پڑا تھا۔ پوری عمارت میں لڑکیاں تھیں یا راہبائیں، جن میں سے ایک راہبہ نے ہمیں بنا دوپٹے کے دیکھ لیا۔ جانے کیا کیا کہا اور سب نے سر جھکا کر سنا، لیکن ایک بات دماغ میں بیٹھ گئی جو انہوں نے کچھ یوں کہی تھی ’بنا دوپٹے کے کون سی تمیز تہذیب لے کر یہاں سے باہر نکلو گی؟‘
شکر میرا سکول تبدیل ہو گیا ورنہ راہباؤں کو تبدیل کر دیتی!
خزیمہ ماسٹرز کی طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے نو عمری میں دوپٹہ پہننا شروع کیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ اس وقت کے فیشن کی تنگ قمیضیں تھیں اور بنا دوپٹے کے خاندان یا معاشرے میں بات نہیں بنتی۔ کچھ سالوں بعد جب کرتا پہننے کا فیشن آیا تو خزیمہ نے خود کو دوپٹے سے آزاد کر دیا۔
شہر بڑا ہو یا چھوٹا، عورت کی عمر کوئی بھی ہو، لیکن ان کے مسائل دوپٹے کو لے کر تقریباً ایک جیسے ہوں گے۔ غلط بھی نہیں ہے کیوںکہ معاشرتی درندے صرف جنس دیکھتے ہیں، باقی سب جزئیات کے زمرے میں آتا ہے جس کے لیے ان کے پاس فرصت نہیں ہے۔
سائرہ اب کئی سالوں سے غیر ملک میں مقیم ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ تبھی گلے میں دوپٹہ ڈالے رکھتی ہیں جب سسرال میں ہوتی ہیں یا اپنے شوہر کی بات کا مان رکھنے بیرونِ ملک میں بھی شلوار قمیض کی صورت میں دوپٹہ ضرور لیتی ہیں۔ اگر جینز شرٹ ہو تب بھی کوئی سکارف وغیرہ ڈال لیتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب وہ اکیلی باہر نکلتی ہیں تو دوپٹے کو بھی اکیلا چھوڑ دیتی ہیں۔ ۔ ۔ گھر پر!
پاکستان میں خواتین پر ایک جانا انجانا معاشرتی دباؤ ہے کہ وہ گھر کے مردوں کے سامنے، گھر کے داخلی دروازے پر، یا بازار وغیرہ جاتے ہوئے دوپٹے کا خیال رکھیں۔ مکمل پھیلا کر پہنا ہو تو واہ واہ، سر پر بھی ڈال لیں تو سبحان اللہ، ورنہ گلے کا پھندا بنا کر تو رکھیں ہی رکھیں۔
کئی خواتین، جن کو گھر سے دوپٹہ پہننے کی پابندی نہیں ہوتی، وہ باہر جاتے ہوئے صرف اس لیے پہنتی ہیں تاکہ انہیں ہوس بھری نظروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ساتھ ہی ساتھ، دوپٹہ پہننے والی خواتین کی ہمارے معاشرے میں زیادہ عزت ہے۔
یقین نہ آئے تو عمیرہ احمد کے ڈرامے دیکھ لیں!
دوپٹے والی لڑکی ہمیشہ صابر و شاکر،پرہیزگار،خدمت گزار، خاموش طبیعت، اوررسم و رواج کی پابند ہو گی۔ دوسری طرف آپ کو ملیں گی جینز شرٹ، یا بنا دوپٹے کے کرتے والی لڑکی جو انتہائی تیز طرار، اپنے حقوق سے آگاہ، بد زبان، بد لحاظ، بدتمیز قسم کی ہو گی۔
معاشرہ تھوڑا میڈیا سے سیکھتا ہے، تو تھوڑا میڈیا بھی معاشرے سے سیکھتا ہے۔
خاندانی تقریبات ہوں، ہسپتال میں ڈاکٹر ہو، سڑک پر رپورٹر ہو، یا گھر پر رہنے والی خواتین، سب کا طریقہ استعمال ایک ہی ہے۔ ان میں سے کچھ اپنی مرضی اور موجودہ دورکے فیشن کے لیے دوپٹہ پہنتی ہیں لیکن یہ ایک دھوکہ ہے۔ دوپٹہ صدیوں پرانا طریقہ ہے یہ جتانے کا، کہ عورت اپنے عمل کی ذمہ دار ہے۔
وہ دوپٹہ اگر نہیں پہنے گی تو وہ دعوت عام دے رہی ہے۔ دوسری جانب، مرد اپنے عمل سے مبرا ہے۔ حرف عام میں اس کو victim shaming کہتے ہیں۔
کئی گھروں میں عورتیں گھر کے اندر بھی پہنتی ہیں جبکہ دوسری طرف گھر کے مرد بنیان اور شلوار میں گھومتے نظر آئیں گے کیوںکہ ’گرمی بہت ہے۔‘ بیچاری عورتیں گرم چولہے کے پاس کھڑی ہو کر اسی دوپٹے سے پسینہ خشک کریں گی، یا اس کا ہلکا پنکھا بنا کر چہرے کو ہوا دیں گی۔
گھر کی عورتوں اور مردوں دونوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ دوپٹہ کچن میں لے جانا خطرناک عمل ہے۔ اسی طرح جب ’ہوا میں اڑتا جائے مرا لال دوپٹہ ململ کا‘ موٹر سائیکل کے پہیے میں پھنستا ہے تو جان لیوا ہو سکتا ہے۔
آخر ایک غیر ضروری چیز کو معاشرے کا حصّہ کیوں بنایئں؟
کئی بزرگ خواتین کہتی ملیں گی کہ پردہ نہیں کرتی ہو تو دوپٹہ تو اوڑھ لو۔ بات صرف اتنی ہے کہ کوئی عورت کچھ بھی پہنے، مگر اپنی مرضی سے پہنے۔ اس خوف سے نہ پہنے کہ مرد اسے وحشی نگاہوں سے دیکھیں گے یا خاندان والے کردار پر انگلی اٹھائیں گے۔
دیکھا جائے تو دوپٹے کا کچھ خاص استعمال نہیں ہے۔ ایک اضافی ڈھائی گز کا کپڑا ہے جس کا مقصد صرف اوباش نظروں کو آپ سے دور رکھنا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔
اسی لیے آج کل اکثریت اس دوپٹے کی ایک اور قمیض بنا لیتی ہے!