’میں بچپن سے لڑکوں کی طرح رہتی ہوں۔ یہ میرا شوق ہے اور میرے والد کا بھی یہ شوق ہے کہ میں لڑکوں کی طرح اپنی زندگی گزاروں۔ اکثر شادی وغیرہ کی تقریبات میں خواتین مجھ سے یہ سوچ کر پردہ کرتی ہیں کہ میں کوئی لڑکا ہوں، لیکن جب میں ان سے ملتی ہوں تو سب میرے سٹائل کی دیوانی ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ کاش ہم بھی آپ کی طرح یہ سٹائل اپنا سکتیں۔‘
27 سالہ گل پری کا تعلق مردان کے علاقے بخت زادہ سے ہے، جن کا لائف سٹائل مکمل طور پر لڑکوں کی طرح ہے۔
گل پری مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں بطور فی میل کوچ خدمات انجام دے رہی تھیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج کل وہ یونیورسٹی کے گیٹ پر بطور فی میل سکیورٹی انچارج ڈیوٹی دینے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’یونیورسٹی میں سب مجھے انسپکٹر کہتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گل پری نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے گرلز پرائمری سکول سے حاصل کی اور پھر کالج کے بعد مردان کی ایک نجی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔
وہ 2008 سے مختلف قسم کے مقامی، قومی اور بین الاقوامی لیول کے کھیل کھیل رہی ہیں، جن میں ہاکی، کرکٹ، فٹبال اور مارشل آرٹس شامل ہیں۔
گل پری کہتی ہیں: ’اصل میں میرا کھیل ہاکی ہے۔ میں ابھی ہاکی نیشنل امپائر سلیکٹ ہوئی ہوں اور خیبر پختونخوا اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کی طرف سے بھی میں نیشنل امپائر ہوں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’پشتون معاشرے میں اگر خواتین باہر کھیل کے لیے نکلیں تو اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن مجھے میرے والدین اور بھائی سپورٹ کرتے ہیں، خاص کر میرا بڑا بھائی مراد خان مجھے بہت سپورٹ کرتا ہے۔ وہ مجھے بہن نہیں بھائی سمجھتا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں کھیلوں میں بہت سے مسائل ہیں۔پاکستان میں خواتین فٹ بال ٹیم کو ہی لے لیجیے۔ وہ صرف اس لیے موجود ہے کہ فیفا قوانین کے مطابق ایسا کرنا ضروری ہے لیکن جو کچھ ہو رہا ہے، ٹھیک نہیں ہو رہا۔ اسی طرح ویمنز ہاکی ٹیم کا معاملہ ہے، جس کا معیار بہت زبردست تھا لیکن اب میدان میں وہ سرگرم نظر نہیں آتیں۔‘
گل پری کے مطابق کھیلوں میں خواتین کی شمولیت اور ان کے فروغ کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اپنا کردار ادا کرے، انہیں سہولیات فراہم کرے اور اسے مقبول بنانے کے لیے میدانوں کی سطح تک حکومت کی موجودگی نظر آنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا: ’مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں خواتین کھلاڑی نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مقامی سطح پر ان کی پذیرائی اور حمایت نہیں ہوتی۔ ہم اپنے اِرد گرد کھیلوں کے جو فاتحین دیکھتے ہیں وہ زیادہ تر ان کی ذاتی دلچسپی اور وسائل کے استعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور ایسا بہت محدود پیمانے پر ہی ہو سکتا ہے۔‘
ایک ایسے ملک میں جہاں قائدین اکثر کھلے بندوں خواتین کو با اختیار بنانے کی بات کرتے رہتے ہیں وہاں کم از کم یہی کہا جاسکتا ہے کہ کھیلوں کے شعبے میں صورتِ حال نہایت مایوس کُن ہے۔ حالانکہ پاکستان میں شہری علاقوں میں تو لڑکیوں کے لیے کھیل کے مواقع کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں لیکن دیہی علاقوں میں رہنے والی لڑکیوں کے لیے بھی وہی سہولتیں فراہم کی جانی چاہییں۔