گذشتہ چند روز سے پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائیٹس بشمول فیس بک اور ٹوئٹر پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں نیلے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ایک شخص کو درخت سے بندھا ہوا اور الٹا لٹکا دیکھا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں داڑھی والے تقریباً 40 سے 45 سال کی عمر کے شخص کو پشتو لہجے میں اپیل کرتے سنا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں کوئی دوسرا فرد نظر تو نہیں آرہا مگر مسلسل ایک اور شخص اس الٹے لٹکے شخص کو ڈنڈے سے مار رہا تھا۔ جب کہ بندھا ہوا شخص مسلسل کہہ رہا تھا: ’میں مر جائے گا، ان لوگوں کو پیسے دو، ایس ایس پی مجھے رہا کراؤ۔‘
وائرل ویڈیو کے ساتھ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ اس شخص کو شمالی سندھ کے کچے میں رہنے والوں نے تاوان کے لیے اغوا کیا ہے اور تاوان کی رقم نہ ملنے پر انہیں درخت کے ساتھ الٹا باندھ کر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ویڈیو بنائی ہے۔
اس سلسلے میں ویڈیو کی تصدیق کے لیے کشمور ضلعی کے مختلف تھانوں پر رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا کہ ویڈیو اپریل 2023 کی ہے، جس میں اس طرح تشدد کیا گیا تھا مگر بعد میں وہ شخص ڈاکوؤں سے آزاد ہوگیا تھا۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ضلع کشمور عرفان سموں کے مطابق: ’اس طرح کی ایک ویڈیو اپریل میں وائرل ہوئی تھی، مگر وہ واقعہ الگ ہے اور تازہ ویڈیو والا واقعہ الگ جو چند روز قبل ہی پیش آیا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان سموں نے تصدیق کی یہ ویڈیو جعلی نہیں بلکہ اصلی ہے اور یہ واقعہ چند روز قبل ضلع کشمور کے ساتھ لگنے والے دریائے سندھ کے کچے میں پیش آیا ہے۔
عرفان سموں کے مطابق: ’ویڈیو میں نظر آنے والے فرد کا نام محمد خالد ہے اور مردان کا رہائشی ہے۔ محمد خالد فرنٹیئر کور (ایف سی) کا اہلکار ہے، جس کی ڈیوٹی کشمور ضلع کے کچے میں ایف سی پوسٹ پر لگی تھی، جہاں ڈاکوؤں نے حملہ کرکے ان کو اغوا کرلیا تھا۔
’ایف سی اہلکار کو کشمور ضلعی میں سرگرم بھنگوار گینگ کے ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا ہے اور اب تاوان مانگ رہے ہیں۔ ہم نے اس واقعے کی ایف آئی آر بھی دائر کی ہے اور ان کی بازیابی کے لیے مسلسل چھاپے مار رہے ہیں اور اب تک کئی افراد کو گرفتار کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایس ایس پی نے مزید بتایا: ’ان چھاپوں کے دوران ہم نے اغوا ہونے والے تین مغویوں کو بھنگوار گینگ کے ڈاکوؤں کی قید سے آزاد کرایا ہے اور جلد ایف سی اہلکار محمد خالد کو بھی جلد ہی بازیاب کرایا جائے گا۔‘
عرفان سموں کے مطابق شمالی سندھ میں دریائے سندھ کے ساتھ لگنے والے اضلاع کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کی موجودگی اور مسلسل کارروائیوں کے باعث مختلف مقامات پر پولیس اور ایف سی کی چوکیاں بنی ہوئی ہیں تاکہ ڈاکوؤں کی نقل حرکت کو محدود کیا جاسکے۔
عرفان سموں کے مطابق: ’ڈاکوؤں اکثر پولیس اور ایف سی کی چوکیوں پر حملہ کردیتے اور کئی بار اہلکاروں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں اور بعد میں تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب ہم اغوا ہونے والے لوگوں کا پیچھا کرکے ڈاکوؤں کے ٹھکانوں کی طرف جاتے ہیں تو وہ دریائے سندھ سے اس پار گھوٹکی ضلع یا دریا میں جزائر پر چلے جاتی ہیں۔
’دریائے سندھ کے کچے کے محل و وقوع کے باعث ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن موثر نہیں ہوتا، مگر اس بار ہر صورت میں اغوا ہونے والے اہلکاروں اور شہریوں کو جلد بازیاب کرایا جائے گا۔‘
شمالی سندھ کے کچے کے علاقے میں گذشتہ چار دہائیوں سے ڈاکو راج قائم ہے جہاں موجود ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ بھی موجود ہے۔