چھ انڈے اور آدھا کلو دہی لایا ہوں آج ناشتے کو۔ وجہ قوت خرید میں کمی سے زیادہ فریج کی ذوق برودت میں کمی کے باعث مرمت کو جانا ہے۔
(ذوق برودت کی ترکیب جیّد مزاح نگار کرنل محمد خان نے اپنے فریج کی ٹھنڈک کے لیے استعمال کی تھی جس میں کمی کے وہ شاکی تھے۔ شکایت مجھے بھی اپنے فریج سے ایسی ہی تھی سو اس ترکیب کو برمحل جان کر ادھار برت رہا ہوں، واپسی کے وعدے پر)
فریج کو میکے سدھارے آج بیسواں روز ہے۔ زندگی بدل سی گئی ہے۔ پانی بغیر برف کے استعمال ہو رہا ہے۔ کھانے کی اشیا اتنی ہی دکان سے لائی جاتی ہیں جتنی صرف ہوں گی۔ بازار کے چکر لگتے ہیں تو کیا ہوا، شاید چلنے سے صحت میں وہ بہتری ہو جو ایک عرصے کی سستی کے باعث خواب ہے۔ کھانا اتنا ہی بنتا ہے جتنا کھایا جا سکے۔ دودھ کے ساتھ بھی معاملہ ایسا ہی ہے۔ خود کو بہلاتے ہیں کہ برف اور محفوظ شدہ کھانوں سے محفوظ ہیں۔ تازہ کھاتے ہیں، تازہ پیتے ہیں۔ اگر پھر بھی کچھ بچ رہے تو سونے کے کمرے میں اس کی مہک بھی صبح تک مشام جاں کو معطر کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صرف یہی بچا رہنے والا سالن یا کھانے پینے کی دیگر اشیا تھیں جنہیں رات بھر کے لیے محفوظ کرنے کو کبھی چھینکے میں رکھا جاتا تھا۔ تب فریج جو نہیں ہوتا تھا۔ چھینکا لوہے کی پٹیوں سے بنا بیضوی، گول یا مستطیل شکل کا ایک ظرف تھا۔ شام ڈھلے چھڑکاؤ کیے گئے صحن میں سونے کو چارپائیاں ڈالنے کے بعد درمیان سے گزرتے تار پر لٹکا، اس میں سالن یا کھانے پینے کی دیگر اشیا رکھ دی جاتیں تا کہ بلی کھانا خراب نہ کر سکے۔
’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا،‘ تب ابھی یہ محاورہ بھی عام تھا اور اس کا مفہوم بھی کیوں کہ تب چھینکا بھی عام تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ چونکہ چھینکا چار دیواری کے وسط میں ہوتا ہے، بلی اس تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
البتہ بلی کے علم میں ہوتا کہ اس کی پسندیدہ شے چھینکے میں موجود ہے اور کوئی صورت نہیں کہ وہ اس تک پہنچ سکے۔ ایسے میں اگر اتفاق سے چھینکا خود بخود ٹوٹ جائے اور کھانے پینے کا سامان بلی کے سامنے آگرے تو کہا جاتا کہ یہ چھینکا بلی کی قسمت سے ٹوٹا ہے یعنی بلی کے بھاگوں (نصیب) چھینکا ٹوٹا۔ یہ محاورہ عموماً تب بولا جاتا ہے جب کسی شخص کو کوئی بہت قیمتی یا پسندیدہ چیز بغیر کسی محنت کے اچانک راہ چلتے مل جائے۔
بغیر محنت کے نعمتیں ملتے تو دیکھا ہے ہم نے مگرحقیقت میں چھینکا ٹوٹتے کبھی نہیں۔ بلی کو کھانے کو البتہ چھیچھڑے بھی مل جاتے تھے اور پینے کو دودھ بھی۔ دودھ تب ایسا نایاب اور بیش قیمت نہیں تھا۔ بچوں کو تو ملتا تھا ہی، مہمانوں کی تواضع بھی اسی سے کی جاتی۔ سردیوں میں عموماً اصل شکل میں گرم اور گرمیوں میں بازار سے لائی گئی برف کا چھوٹا سا ٹکڑا اور لال بوتل ڈال دودھ سوڈا بنا کر۔
پیے جانے سے بچ رہنے والے دودھ کو بالائی سمیت دہی بننے کے لیے رکھ دیا جاتا۔ فجر سے پہلے بالائی والے دودھ کو بلو کر لسی اور مکھن بنائے جاتے اور باقی ماندہ دہی کو گھر کے لوگ رات کے بچے سالن کے ساتھ مکھن کے پراٹھے کھاتے ہوئے پی لیتے۔ جی ہاں دہی کو بڑے پیالوں میں پیا جاتا تھا، کھانے کا رواج بعد میں پڑا۔ لسی بھی اسی طور کھانے کے ساتھ یا کھانے کے بغیر دوپہر تک پی جاتی۔ کچھ ہم سایوں کو بھی دی جاتی، کئی بار مکھن کے چھوٹے سے پیڑے کے ساتھ۔
سردیوں میں پراٹھوں میں کبھی گوبھی ڈالی جاتی کبھی مولی۔ دوپہر میں تندور میں پکی گندم یا مکئی کی روٹیاں چپڑی ہوئی ملتیں۔ ان کے پھولے حصے میں جیب سی بنا کر دادی اماں مکھن ڈال دیتیں۔ ذائقے کی داد کھانے والے ہی دے سکتے ہیں۔
موسم سرما میں چھینکے کی نسبتاً کم ضرورت پڑتی کیونکہ تب اس میں شدت زیادہ تھی۔ ایسے میں کھانے پینے کی اشیا ایک جالی والی الماری میں رکھی جاتی تھیں جسے ہمارے ہاں تو ڈولی کہا جاتا تھا، دیگر علاقوں کے رہنے والے ممکن ہے کچھ اور کہتے ہوں، مگر تجربہ یقیناً ایسا ہی ہو گا فریج کے آنے سے پہلے۔
لگ بھگ چالیس سے پچاس برس پہلے ہماری زندگی میں آنے والے ریفریجریٹر یا فریج کہلانے والے اس آلے نے زندگی کے اطوار ہی بدل کر رکھ دیے، کھانا پینا، مہمان داری، اشیا محفوظ کرنا سب کچھ بدل گیا۔ یہ سب بدلا تو ماحول پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے۔ ہم پہلے کی نسبت زیادہ کھانے اور زیادہ ضائع کرنے لگے۔ ریفریجریٹر نے کھانے پینے کی اشیا کی زندگی کو طوالت بخشی ہے، ماننا پڑے گا۔ مگر تازگی کی قربانی سے صرف نظر بھی مشکل ہے۔
اب جب کہ فریج کے بنا جینا سیکھ لیا ہے اور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اور کیا چیز ہے جس کے بغیر زندگی آسانی سے گزر سکتی ہے؟
رسید بتاتی ہے کہ ایک دو دن میں فریج واپس آ جائے گا۔ اور پھر ہم ہوں گے اور وہی برفیلے مشروب اور پرانے کھانے گرم کریں گے، کھائیں گے، اور کھاتے ہی صوفے پر نیم دراز ہو کر ٹی وی دیکھیں گے اور کہیں گے فریج کے بغیر زندگی مشکل تھی!