وہ جوان تھے اور خوابوں کی دنیا میں رہتے تھے۔ پرینے پرمیلا لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے شادی ہال میں داخل ہوئے۔ انہوں نے گہرے نیلے رنگ کا سُوٹ پہن رکھا تھا۔ جب انہوں نے اپنی دلہن امروتھا ورشنی کا ہاتھ تھاما تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ جوڑے نے ہندو رسم کے مطابق ایک دوسرے کو پھولوں کے بڑے بڑے ہار پہنائے۔ رشتہ داروں نے رواج کے طور پر ان پر زرد رنگ کے چاول پھینکے جو ان کے کالے بالوں میں الجھ گئے۔
یہ جوڑا اپنی شادی کا جشن منانے سے پہلے ہی خطرے سے دوچار تھا۔ شادی کو ایک ماہ سے بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک روشن دوپہر جب یہ جوڑا ڈاکٹر کے کلینک سے نکل رہا تھا تو ایک شخص پیچھے سے ہاتھ میں ایک بڑا سا چھرا تھامے ان کی جانب بڑھا۔ اس نے پرینے کے سر اور گردن پر وار کیا جس سے ان کی موقع پر ہی موت واقع ہوگئی۔
23 سالہ پرینے دلت تھے۔ یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے بولی جاتی ہے جنہیں پہلے اچھوت کہا جاتا تھا۔ پرینے کی محبوبہ 21 سالہ امروتھا اونچی ذات سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے امیر اور طاقتور خاندان کے نزدیک ان کی شادی ایسی توہین تھی جسے وہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق لڑکی کے والد ٹی ماروتھی راؤ اس شادی پر اتنے غصے میں تھے کہ انہوں نے داماد کو قتل کروانے کے لیے کرائے کے قاتلوں کی خدمات حاصل کیں۔
بھارت میں معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے لیکن اس تبدیلی کی رفتار اتنی تیز نہیں کہ امروتھا اور پرینے کی شادی کو برداشت کرسکے کیوں کہ انہوں نے شادی کرکے امتیاز اور طبقات کے قدیم فرسودہ نظام سے ٹکر لی تھی۔
بھارت میں لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالا گیا ہے۔ شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے اورملک دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے لیکن ذات پات کا نظام وہ سماجی درجہ بندی ہے جس کی جڑیں ہندومت کی کتابوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان حالات کی بنیاد اس شناخت پر قائم ہے، جس کا تعین پیدائش کے وقت ہو جاتا ہے اور وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ نظام شادی بیاہ کے معاملے میں بہت زیادہ مزاحمت دکھاتا ہے۔
2017 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں مختلف ذات کے لوگوں کے درمیان شادیوں کی شرح محض 5.8 فیصد ہے۔ اس صورت حال میں گذشتہ 40 برس میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔
سرکردہ تحقیق کار اور اعداد و شمارکے ماہرتریدیپ رائے نے کہا: ’تحقیق کے نتائج نے محققین کو حیران کر دیا جنہیں امید تھی کہ انہیں’مختلف ذاتوں کے درمیان زیادہ میل جول‘ دیکھنے کو ملے گا۔ بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ ‘
بھارت میں بعض اوقات ذات برادری کی حدود پار کرنے کا نتیجہ تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ صرف جون میں ریاست گجرات، تامل ناڈو، مدھیہ پردیش اور آندھرا پردیش میں ایسے مردوں اور خواتین کو قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے جنہوں نے اپنی برادری سے باہر شادی کی تھی۔
حکمران جماعت کے ایک سیاستدان کی بیٹی نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئرکی ہے جس میں انہوں نے اپنے ہی والد کے خلاف شکایت کرتے ہوئے اپنے لیے تحفظ مطالبہ کیا ہے کیونکہ انہوں نے خاندان کی خواہشات کے خلاف ایک دلت شخص سے شادی کر لی تھی۔
ممتاز مؤرخ، ذات پات اور صنفی معاملات کی ماہراوما چکرورتی کہتی ہیں: ’ایسی انتقامی کارروائیاں روایت اورغیرت کے نام پر کی جاتی ہیں لیکن ان کے مقاصد بہت گہرے ہوتے ہیں۔ ‘
کسی خاتون کی جانب سے شادی کے لیے مرد، جس میں دلت بھی شامل ہیں، کے انتخاب کی صورت میں یہ سارا نظام جو عدم مساوات کو سہارا دیتا ہے، عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک دبلی پتلی بیضوی چہرے والی نوجوان خاتون امروتھا اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھیں۔ یہ کمرہ پرینے کے والدین بھی استعمال کرتے تھے۔ ان کے قریب لگی سکرین پر کلوز سرکٹ کیمروں کی تصاویر نظر آ رہی تھیں: سامنے کا دروازہ، گلی، کونا جہاں آم کا ایک بڑا سا درخت تھا، جس نے گھر پر سایہ رکھا تھا۔ بھرے بھرے جسم کا مالک ان کا چھ سالہ بیٹا جس کے چہرے پر والد جیسی مسکراہٹ تھی ان کی گود میں بیٹھا تھا۔
پرینے کا گھر دلتوں کے علاقے کے کنارے پر واقع ہے جو خاندان کے مڈل کلاس سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے، جس کی بنیاد ان کے والد بالاسوامی نے رکھی جو لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا میں گذشتہ تین دہائیوں سے کلرک کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ امروتھا پانچ منٹ کی دوری پر واقع اس بڑی سی عمارت میں پلی بڑھیں جو ان کے والد کی ملکیت ہے۔ ان کے دولت مند والد جائیداد کی خریدوفروخت کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے جس قصبے میں وہ رہتے ہیں اس کی آبادی ایک لاکھ ہے۔ قصبے کے اردگرد رائس ملز واقع ہیں۔
دلت بھارت کی کل آبادی کا 17 فیصد ہیں۔ ان کی تعداد 1.3 ارب سے زیادہ ہے۔ ذات کے درجات کے اعتبار وہ بے حد نچلی سطح پر ہیں۔ صدیوں کی غلامی کے بعد وہ مثبت طریقے سے سیاست، اعلیٰ تعلیم اور کاروبارمیں میں جزوی طور اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔
لیکن جیسا کہ پرینے اور امروتھا کی کہانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ معمولی ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دلت جہاں دل چاہے شادی کر لیں اور جہاں چاہے رہیں۔ وہ اب بھی بھارت کا سب سے بدنام اور خطرناک کام کرتے ہیں۔ انہیں ملازمت کے حصول میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے جبکہ زمین کا مالک بننے کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔
دلتوں کے انسانی حقوق کے لیے قومی مہم کے جنرل سیکرٹری پال دیواکر نے کہا:’بھارت میں ایک فرد کو ایک ووٹ کا حق دیا گیا ہے لیکن یہ ہر انسان کو اسی طریقے سے نہیں دیا گیا۔ ‘
جب امروتھا نے ہائی سکول میں تعلیم کا آغاز کیا تو ان کے والدین نے انہیں بتایا کہ وہ نچلی ذات کی لڑکیوں کو سہیلی نہ بنائیں،خاص طور پر دلت لڑکیوں کوجنہیں سرکاری طور پر اقلیت قرار دیا گیا۔ امروتھا کے خاندان کا تعلق آریہ وسیا سے ہے جو کوماتی برادری کا حصہ ہے جسے روائتی طور پر کاروباری سمجھا جاتا ہے۔
جب امروتھا نویں جماعت میں تھیں تو دوستوں کے گروپ کے ساتھ فلم دیکھنے کے لیے گئیں۔ اس وقت بھارت میں ذات پات کے نظام کی پیچیدگیاں ان کے ذہن سے دور تھیں۔ وہ پرینے کو سکول کے زمانے سے جانتی تھیں جہاں وہ ان سے ایک سال آگے تھے۔ وہ بہت زندہ دل اور کسرتی جسم کے مالک تھے۔ بعد میں انہوں نے موبائل فون پر ایک دوسرے کو ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے شروع کر دیے۔
ان کی بڑھتی ہوئی دوستی کے نتائج جلد سامنے آ گئے۔ جب امروتھا کے والد کو صورت حال کا علم ہؤا تو امروتھا نے بتایا کہ والد نے انہیں پہلی بار مارا لیکن یہ مارپیٹ آخری بار نہیں تھی۔ والد نے ان سے موبائل فون اور لیپ ٹاپ واپس لے کر انہیں دوسرے سکول میں داخل کرا دیا۔ اگلے چھ برس کے دوران امروتھا اور پرینے کے درمیان بعض مواقعے پر مختصر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
امروتھا کے والد کے سر پر اکلوتی بیٹی کی شادی کی دھن سوار ہو گئی۔ امروتھا والد کے الفاظ کو یاد کرتی ہیں کہ انہوں نے کہا کہ وہ ان کی شادی ایسے بھکاری کرنے سے بھی کرنے پر تیار ہیں جس کا تعلق اونچی ذاتی سے ہو۔ والد نے کہا:’لیکن میں تمہاری شادی نچلی ذات کے کسی شخص سے نہیں کروں گا چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ ‘
کالج میں دو سال کے دوران پرینے نے انجینئرنگ کی ڈگری کے لیے تعلیم حاصل کی جبکہ امروتھا نے فیشن ڈیزائننگ سیکھی۔ انہیں خوف ہوا کہ والدین ان کی شادی کسی اور سے کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے پرینے سے کہا کہ وہ گھر سے بھاگنا چاہتی ہیں۔
30 جنوری 2018 کی دوپہر جب والدہ آرام کے لیے گئیں تو امروتھا نے وہ بیگ اٹھایا جو انہوں نے پہلے سے تیار کر رکھا تھا۔ بیگ میں کریم کے رنگ کا وہ لباس جو انہیں سالگرہ پر ملا تھا، تعلیمی اسناد اور شناختی کارڈ تھے۔ وہ سیڑھیاں اتر کر گلی میں پہنچ گئیں جہاں پرینے وعدے کے مطابق ان کا انتظار کر رہے تھے۔
امروتھا اور پرینے خوف زدہ تھے لیکن ان کے پاس منصوبہ تھا۔ انہوں نے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی اور انگریزی زبان میں مہارت کے ایک امتحان کی تیاری شروع کر دی۔ انہیں امید تھی کہ وہ آسٹریلیا چلے جائیں گے اور شائد پرینے کاروبار،فیشن سٹوڈیو حتیٰ کہ ڈیری فارم کے خواب کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دونوں نے حیدر آباد میں آریہ سماج کے زیر انتظام مندر میں جا کرچند دوستوں کی موجودگی میں شادی کرلی۔ آریہ سماج ہندو اصلاح پسند گروپ ہے جو دو مختلف ذات کے لوگوں کے درمیان شادی کے حامی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پانچ ماہ بعد امروتھا کو علم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں اس لیے جوڑے نےملک چھوڑنے کا خیال ترک کر دیا اور اپنی شادی کی خوشی منانے کے لیے تقریب کا اہتمام کیا۔
17 اگست 2018 کو ہونے والی تقریب میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی لیکن امروتھا کے والدین کی عدم موجودگی نمایاں تھی۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق ان کے والد ٹی ماروتھی راؤ نے پہلے ہی پرینے کے قتل کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ ایک ماہ پہلے وہ ایک مقامی سیاستدان کو درمیان رکھ کر داماد کے قتل کے لیے ڈیڑھ لاکھ ڈالر(ایک لاکھ 24 ہزار پاؤنڈ) ادا کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔ دستاویزات سے مزید پتہ چلا ہے کہ ٹی ماروتھی راؤ نے جوڑے کی وہ تصویر فراہم کردی جو شادی کی تقریب کے دوران لی گئی تھی۔ تصویر دینے کا مقصد یہ تھا کہ قاتل پرینے کی آسانی سے شناخت کر سکیں۔
14 ستمبر کو امروتھا، پرینے اوران کی والدہ پریمالتھا جیوتھی ہسپتال میں امروتھا کی ڈاکٹرسے ملنےکے بعد واپس جا رہے تھے۔ کلوز سرکٹ کیمرے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میاں بیوی پرسکون نظر آ رہے تھے۔ وہ باتیں کرتےہوئے سڑک کی جانے بڑھ رہے تھے۔ ان کے پیچھے چلنے والے قاتلوں نے دو وار کئے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکتے اورمخمصے کا شکارامروتھا نے اپنے ہاتھ سر پر رکھ لیےاورپھر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے مدد کے لیے واپس ہسپتال کی طرف گئیں۔
بے ہوش ہونے سے پہلے انہوں نے والد کو پکارا۔ انہوں نے کہا’کسی نے پرینے پر حملہ کیا ہے۔ یہ آپ نے کیا کیا؟‘
اس قتل نے ریاست تلنگانہ کے ضلع نلگوندہ کے شہر میریالاگودا میں لوگوں کو تقسیم کردیا۔ پرینے کے قتل کے بعد سینکڑوں افراد جن میں سے زیادہ تر دلت تھے ان کے خاندان کے پاس آئے اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ انہوں نے مقتول نوجوان کی یاد میں مجسمہ نصب کرنے پر بھی غور کیا۔
دوسرے لوگ امروتھا کے والد کے حق میں اکٹھے ہوئے۔ قریبی شہر نلگوندہ میں آریہ وسیا ایسوسی ایشن کے اعزازی صدر بھوپتی راجو نے کہا’یہ قتل اس لیے ہوا کہ ان کی محبت کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ نویں جماعت میں تھے۔ اسے اس وجہ سے قتل کیا گیا کیونکہ اس کی محبت کو برداشت نہیں کیا۔ ‘بھوپتی راجو نے’تحفظ والدین ایسوسی ایشن‘ قائم کی اور سینکڑوں لوگوں کو جمع جیل میں بند امروتھا کے والد کو ملنے کے لیے گئے۔
میریالگودا شہر میں ایک وکیل شیام سندر چلوکری نے اس طرح کا ایک گروپ قائم کیا۔ انہوں نے کہا ’یہ قتل ایسا واقعہ ہے جس میں چھوٹی ذات کے کے نوجوان نے لڑکی کو ڈرا دھمکا کر اس سے شادی کی۔ اس بات کا امکان ہے کہ امیر لوگوں کی دوسری بیٹیوں کو محبت کے نام پر پھانسا جائے گا۔ انہوں نے ایسا کرنے والوں کو’غنڈے‘قرار دیا۔
شیام سندر چلوکری نے کہا کہ ان کا گروپ امروتھا کے والد کی مدد کے لیے نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے کچھ دیر وقفہ کیا اور کہا’کیا آپ ان سے ملنا چاہتے ہیں؟‘انہوں نے اپنا فون اٹھایا اورامروتھا کہ کے والد ٹی امروتھی راؤ کو کال کی جو ضمانت پرہیں اور ان کا مقدمہ شروع ہونا باقی ہے جو توقع ہے کہ سمتبر تک شروع ہو جائے گا۔
امروتھا کے والد ایک چھوٹے سے کیفے کے کونے پر کھڑے تھے۔ وہ ایک موٹے پیٹ والے شخص ہیں جن کی مونچھیں تھیں اور اس نے سنہرے رنگ کا چشمہ لگا رکھا تھا۔ ماروتھی راؤ پلاسٹک کی ایک چھوٹی میز کے قریب ایک رپورٹر کے ساتھ کچھ دیر کے لیے بیٹھے لیکن قانونی مشورے کو جواز بناتے ہوئے مقدمے کے ریکارڈ پر بات کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے وکیل رویندر ریڈی نے بھی تبصرے سے انکارکر دیا۔
پولیس کے مطابق 56 صفحات پرمشتمل مرکزی دستاویزماروتھی راؤ کو قتل کے مقدمے سے جوڑنے کے کافی شواہد مشتمل ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ماروتھی راؤ نے 30 ستمبر کو اعتراف جرم کیا تھا۔
ضلع نلگوندہ کے سپرانٹینڈنٹ پولیس اے وی رنگا ناتھ نے کہا ہے کہ وہ سیاستدان جنہوں نے ماروتھی راؤ اور قاتلوں کے درمیان مڈل مین کا کردار ادا کیا انہوں نے غیرارادی طورپر اپنے موبائل فون پر کال ریکارڈ کرنے کا فیچر آن کر دیا تھا۔ ایسی ریکارڈنگ عدالت میں مددگار ثابت ہوگی۔
پرینے کے والد 53 سالہ بالا سوامی نے کہا ہے کہ ان کا خاندان چاہتا ہے کہ ماروتھی راؤ کو سزا ملے تاکہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ جب وہ یہ باتیں کر رہے وہ اپنے پوتے نہلان کو بازوؤں میں لیے اسے پیار کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک ہاتھ پوتے کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر پیارسے سے اس کے گال پر بوسہ دیا۔ بالاسوامی کو ٹھیک وہی انداز اختیار کرتے دیکھا جا سکتا ہے جو پرینے نے ایک سال سے بھی کم عرصہ پہلے اپنی شادی کی خوشی میں تقریب کے موقعے پر بنائی گئی ویڈیو میں اختیار کیا تھا۔
جب امروتھا کے ہاں بچے کی ولادت کا موقع آیا تو خاندان نے حفاظتی نقطہ نظر سے فیصلہ کیا کہ حیدر آباد کے ہسپتال جانا بہتر ہوگا جو ایک بڑا شہر اور تین گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ بالا سوامی کے مطابق جب خاندان نے وہاں کرائے پر اپارٹمنٹ لینے کی کوشش کی تو کئی مکانات کے مالکوں نے انہیں دلت ہونے کی وجہ سے مکان کرائے پر دینے سے انکار کر دیا۔ بالاسوامی نے کہا کہ ذات کی بنیاد پر امتیازی سلوک ایسا مسئلہ ہے’جس کا ہم ہمیشہ سامنے کرتے ہیں۔ ‘
امروتھا کہتی ہیں کہ پرینے کے والدین اب ان کے اپنے والدین جیسے ہیں۔ انہوں نے کہا ’میرے والد میرے خاوند کی موت کی وجہ بنے لیکن پرینے کے والدین کو علم ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ‘