اس ہفتے کی عجیب و غریب اور پریشان کن خبروں میں سے ایک ویلش کے سیاحتی قصبے پورٹکال کے ساحل پر بنائے جانے والے مجوزہ ’اینٹی سیکس ٹوائلٹس‘ کی تعمیر کی خبر تھی جن کو نازیبا حرکات (جن میں بے گھر افراد کا سونا بھی شامل ہے) کے لیے استعمال ہونے سے بچانے کے لیے کئی اقدامات کیے جائیں گے۔
کچھ روز پہلے شائع ہونے والی اس خبر کے مطابق ایک لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ کی لاگت سے بننے والے ان بیت الخلاؤں میں ہیجان انگیز حرکات کی نگرانی کے لیے سنسرز نصب کیے گئے ہیں۔ کسی بھی ایسی صورتحال میں بیت الخلا کے دروازے خودکار طریقے سے کھل جائیں گے، الارم چیخ پڑیں گے اور واٹر جیٹس سے نازیبا حرکات میں ملوث افراد کو بھگو دیا جائے گا۔
نامناسب سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ان ٹوائلٹس کے فرش پروزن جانچنے والے ایسے سنسرز لگائے گئے ہیں جن کی مدد سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ایک وقت میں بیت الخلا میں ایک سے زیادہ افراد موجود ہیں۔
میرے نزدیک یہ موٹے افراد کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔
پھر اس سے ان لوگوں کا کیا بنے گا جنہیں اپنے کسی ایسے پیارے کی مدد کے لیے ٹائلٹ جانا پڑتا یا جو خود اپنی مدد کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
ان ٹوائلٹس کی تفصیلات سامنے آنے پر سوشل میڈیا سے اٹھنے والے طوفان کے بعد پورٹکال ٹاؤن کونسل کا کہنا ہے کہ مجوزہ منصوبہ بندی کے حوالے سے درخواست غلطی سے داخل دفتر ہو گئی تھی۔
مجھے یقین ہے کہ پورٹکال کی انتظامیہ ان پیسوں کا بہتر استعمال کر سکے گی جس سے کم از کم پیار کرنے والوں یا بے گھر افراد کو سونے سے روکنے کے لیے جدید ترین اور خود کار تیز شور والے الارم، پانی کی بوچھاڑ یا ہیٹنگ اور لائٹنگ سسٹم کو بند کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
شاید وہ ان ٹوائلٹس کے لیے کچھ بہتر اور دوستانہ اقدام کریں جیسا کہ باقاعدگی سے صفائی اور کھڑکیوں پر تازہ پھولوں کے گملے رکھنا شامل ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیت الخلا ہمیشہ خاص طور پر خواتین کے لئے اہم رہے ہیں۔ سکول کے بعد ٹوائلٹس ہی لَو بائٹس یا ماہواری جیسے ہنگامی امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے اہم جگہ رہے ہیں۔
وہ یہاں اضافی پانی بہانے کے ساتھ ساتھ اعتراف جرم بھی کر سکتی ہیں، یہ ایک ایسی پناہ گاہ ہے جہاں آپ تنہائی میں چھپ بھی سکتے ہیں اور رو بھی سکتے ہیں۔
برسوں پہلے میں نے ایڈنبرا میلے حصہ لیا تھا۔ میں پلیزینس تھیٹر میں پرفارم کرنے سے خوفزدہ ہو جاتی تھی۔ یہ وہ خوف تھا جن کے بارے میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا اور میں اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنے اور خوف کو دور کرنے کے لئے بیت الخلا میں خود کو بند کر لیتی تھی۔ یہ ایک مضبوط اور اندر سے لاک کیے جانے والا بیت الخلا تھا جہاں ٹائلٹ پیپر سے اپنے آنسوؤں کو صاف کرنے سے مجھے راحت محسوس ہوتی تھی۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب میں مانچسٹر میں ڈرامہ کی طالب علم تھی اور اکثر نائٹ کلب جاتی تھی جہاں میں بیت الخلا میں ووڈکا کی ممنوعہ بوتل کے ساتھ اتنا ہی وقت صرف کرتی تھی جتنا ڈانس فلور پر۔
نائٹ کلب کے بیت الخلا ہی وہ جگہ ہیں جہاں تمام حقیقی کارروائی ہوتی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں حقیقی دوستی کی آزمائش ہوتی ہے۔ خواتین میں لپ سٹکس اور کاجل شیئر کیا جاتا ہے، ٹیمپونز ادھار مانگے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بال سنوارتی ہیں۔
مجھے ایک اچھا بیت الخلا پسند ہے۔ ایک بار میامی کے دورے پر میں نے ایک شاندار صبح کو تمام پرتعیش ہوٹلوں کو وزٹ کرنے کا منصوبہ بنایا اور وہاں دسیتاب سہولیات کی جانچ پڑتال کی۔
آپ کسی اچھی جگہ کو وہاں فراہم کی جانے والی سہولتوں کے ذریعے پہچان سکتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں کہیں بھی کھانے کا آرڈر دینے سے پہلے وہاں کے بیت الخلا کی جانچ پڑتال کرتی ہوں کیونکہ اگر کوئی ریستوران اپنے ٹوائلٹس کو صاف نہیں رکھ سکتا ہے تو پھر وہاں کے باورچی خانے میں کیسی حالت ہوگی؟
انسٹاگرام کی بدولت ملک میں موجود ٹوائلٹس نے اپنے آپ میں سیاحتی منزلوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مجھے ویسٹ اینڈ کے ہوٹل سکیج میں انڈے کی شکل کے چمکدار سفید پوڈ ٹوائلٹس پسند ہیں جہاں آپ پرندوں کی میٹھی آوازوں سے بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔ بعض جگہوں پر تو مینڈکوں کی ٹرٹرانے کی آوازیں آپ کو حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
اگر آپ اس سے بھی زیادہ نفاست پسند ہیں تو ’اینا بیل‘ کے بیت الخلا آپ کے لیے جنت سے کم نہیں ہیں جہاں گلابی رنگ کے یونٹس، پھولوں والے وال پیپر، سوان گولڈ فٹنگ کے ٹیپ اور ویلویٹ کے کپڑوں سے مزین سٹول موجود ہیں جن پر بیٹھ کر آپ اپنے پلے بوائے، بوائے فرینڈ اور ان کے پرتعیش چھوٹے بحری جہازوں کی لمبائی کے بارے میں گفتگو کر سکتی ہیں۔
ادھر ہل کے پبلک ٹوائلٹس کو برطانیہ کے 500 بہترین مقامات میں سے 483 نمبر پر رکھا گیا ہے اور کیوں نہ ہو۔
ملک کے انتہائی حیران کن بیت الخلاؤں کے بارے میں گوگل کریں جو آپ کو پیکھم میں ایک کثیر المنزلہ متروک کار پارکنگ پلازے کی دسویں منزل پر واقع فرینکس کیفے کے ٹوائلٹس سے نظر آنے والے حیرت انگیز نظاروں کو دیکھنے کے لئے رہنمائی فراہم کرے گا۔ جنوبی لندن کا اس سے بہتر نظارہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔
ہوسکتا ہے کہ آپ لندن آئی سے بھی اس کا نظارہ کر سکیں لیکن یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو زیادہ سے زیادہ رقم ضائع کر سکتے ہیں۔
چونکہ اپریل میں نیٹ ورک ریل ٹرین سٹیشنز پر ٹوائلیٹس کے چارجز ختم کر دیے گئے تھے تو اگر میں ان دنوں بیت الخلا کے لیے پیسے خرچ کرنا چاہوں تو میں بلینہیم پیلس کا بیت الخلا استعمال کرنا چاہوں گی جہاں 18 قیراط سونے سے مزین ٹائلٹ کے لیے ایڈوانس بُکنگ کرانا پڑتی ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ تین منٹ تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ اس تین منٹ کی حد کو کیوں نافذ کیا گیا ہے لیکن میں تصور نہیں کرسکتی کہ بلینہیم پیلس آنے والے سیاح اس صورتحال کا کیسے سامنا کرتے ہوں گے۔
آرٹ کے کام میں اطالوی تصوراتی فنکار ماریزیو کٹیلن کا کوئی ثانی نہیں ہے اور سو سال بعد یہ ڈچیمپ کے بدنام زمانہ فاؤنٹین یورینل پر دیکھا جا سکتا ہے۔
لہذا میں پورٹکال کے ان نئے بےآرام انقلابی بیت الخلاؤں کے لالچ میں نہیں آؤں گی۔ اس سے بہتر ہے کہ میں خالص سونے سے بننے ہوئے ٹوائلٹس پر پرسکون ہونے کے بارے میں سوچوں۔ اگر آپ ڈالر خرچ کر رہے ہیں تو آپ کو ٹائلٹ پیپر کی بجائے خالص پشمینہ کے رومال ملنے چاہییں۔
© The Independent