جندو دیکھتے ہی جو پہلا کردار تاریخ کے اوراق سے ذہن کے کینوس پہ ابھرتا ہے وہ جھانسی کی رانی کا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
مائی جندو ڈرامے میں جس طرح ظلم کے خلاف استعارہ بنی ہے ویسے ہی جھانسی کی رانی نے انگریز سرکار کے خلاف مزاحمت کی تھی۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ لکشمی بائی کی شادی جھانسی کے مہاراجہ گنگا دھر راؤ سے ہوئی، اس کے بعد کی تاریخ اپنی جگہ لیکن قصہ مختصر وہ ایک بہادر عورت کی علامت بنیں اور آج تک اسی پہچان سےزندہ ہے۔
گرین اینٹر ٹینمینٹ آیا اور آتے ہی اس نے ناظرین میں اپنی جگہ بنا لی اور مقبولیت کی فہرست میں درجہ اول میں شامل ہو گیا ہے۔
ڈراما ’جندو‘ بھی گرین ٹی وی سےبدھ کی رات نشر کیا جا رہا ہے۔ اس ڈرامے کی پہلی خصوصیت تو ناظر کو ایک صحرائی جنگجو عورت سے متعارف کروانا ہے جو تاریخ میں تو ملتی ہے اب اس کا مثبت کردار بہت کم دکھائی دے رہا ہے۔
ایک اور خصوصیت ڈرامے کی زبان ہے۔ اس زبان میں شاید یہ پہلا ٹی وی ڈراما ہے۔ یہ زبان پنجابی ہے نہ سرائیکی۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں یہ زبان یا بولی زندہ ہے اور یہاں اسے رانگھڑی کہا جاتا ہے۔
صحرائی عورت کی دلیری اور وہاں کی تہذیب و تمدن، ضرب المثل، موسیقی سب پہ جیسے مصنف کا مطالعہ وسعت کا حامل ہے۔
تہذیب کے باب میں زمین اور زبان کے ساتھ رشتوں کے تعلق اور ان کی آپس کی کیمسٹری الگ ہوتی ہے جو کسی بھی ثقافت کی پہچان بنتے ہیں۔ اس زبان اور تہذیب کے ساتھ جڑی اچھی بڑی روایات جیسے پورے جلال و جمال کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
جندو ایک غریب باپ کے قرض اتارے میں اپنے سے 20 سال بڑی عمرکے بخشو کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہے۔
شادی کے وقت اس کی عمر 15 سال تھی اور اس کی ماں ایک بیٹی چھوڑ کر مر گئی تھی۔ باپ نے دوسری شادی کی تو دوسری بیوی بھی ایک بیٹا چھوڑ کر دنیا سے کوچ کر گئی۔
غربت جتنی زیادہ تاریک ہوتی ہے امارت اتنی ہی روشن ہوتی ہے۔ ایک طرف یہ غربیوں کے جھونپڑے ہیں تو دوسری طرف محل ہیں اور جندو کو بےبسی کی پہلی رات محل میں گزارنا پڑتی ہے۔
عیاش داد سائیں اس کو ریپ کانشانہ بنا دیتا ہے۔ یہ زیادتی جندو کے دل کا گھاؤ بن کر ہمیشہ ہری رہتی ہے اس کی روح کو لگا زخم کبھی نہ بھر سکا۔
ایک آگ سی تھی جو اس کے اندر جلتی رہی۔ اس کو بجھاتے بجھاتے وہ ایک پیر کی سر پرستی میں گھڑ سواری، نشانہ بازی، بندوق چلانا سب کچھ سیکھ گئی تھی۔
ساتھ ہی ساتھ اس نے کئی لڑکیوں کی تربیت بھی کر لی تھی جو سب ایک جیسے لباس پہنتی ہیں، اس لیے علاقے والوں کے لیے ان کی پہچان بھی مشکل ہو گئی ہے۔ جندو نے محل کے ظلم کے خلاف صحرا کی ریت کو خوف سے کانپنے پہ مجبور کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب کوئی قتل ہوتا ہے تو جندو کا نام ہی لیا جاتا ہے۔ سرکار بی بی جیسے جندو کا دوسرا روپ ہے جس کی دعا کے بارے میں مشہور ہو چکا ہے کہ وہ جو دعا کرتی ہے قبول ہو جاتی ہے۔
ایک روز داد سائیں بھی دعا لینے آجاتے ہیں دعا سے جھولی بھر جاتی ہے مگر ان کے اندر کا عیاش مرد باپردہ سرکار بی بی کی عورت میں پھنس جاتا ہے۔
سرکار بی بی اپنا چاقو نکال لیتی ہے اور دھمکی دیتی ہے کہ جندو کے ساتھی کہیں اس کو بھی نشانہ نہ بنا دیں لہٰذا داد سائیں کو سرکار بی بی کا چہرہ دیکھے بنا وہاں سے جانا پڑتا ہے۔
لگتا یہی ہے کہ سرکار بی بی اور جندو ایک ہی بہادر عورت کے دو روپ ہیں جو داد سائیں کے ظلم کے خلاف پہلی بار منظم طور اٹھے ہیں۔
عورت ذات سے تو ویسے ہی داد سائیں یا مرد کو کوئی توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ انتقام کی اس دلدل میں صحرا کی پیاسی ریت کو خون سے سیراب کر دے گی لیکن دکھائی دے رہا ہے کہ جندو اپنے اندر کی آگ کو شانت کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
پورا گاؤں داد سائیں اور اس کے خاندان کے ظلم سے خون اورآنسو کی زندگی سفر کر رہا ہے۔
اگلی اقساط میں محل میں ایک مزاحمتی کردار سائیں حسرت کی دوسری بیوی کا دکھائی دے رہا ہے لیکن ان سب کرداروں کا وزن اٹھاتا ماسی کا کردار ہے جو ایک گائک ہے۔ صحرا کے فن اور حسن کو اس کردار نے چار چاند لگا دیے ہیں۔
حمیمہ ملک نے اپنے فن سے کردارمیں روح پھونک دی ہےت پروجیکٹ ہیڈ میشا ثاقب ہیں۔ پوری ٹیم کی محنت ہر شعبہ میں دکھائی دے رہی ہے۔ بہت سے مناظر اور کہانی خود اچانک سے بڑی سکرین کے منظر میں بدل جاتی ہے۔
ڈراما قربان علی راؤ نے لکھا ہے اور ہدایت کار انجم شہزاد ہیں۔
ان سے ہم نے ڈراما کے حوالے سے پوچھا کہ اردو کے دائرے سے نکل کر اگر ہم کام کرتے ہیں تو کتنا مشکل ہوتا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ ’دیکھا جائے تو یہ دنیا میں نارملی ہوتا ہے کہ اپنی زبان سے نکل کے کسی اور بولی یا لہجے پہ کام کیا جائے۔ لہجہ سکھانے والے ہوتے ہیں جو اس پہ ورکشاپس کرواتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک ڈائریکٹر پروڈیوسر کے لیے یہ ذرا سا ٹیکنیکل ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ ایک ہی لہجے میں کام کرتے ہیں۔
پھر بھی یہ ناممکن نہیں ہے، ’جیسے ہم جندو کی بات کرتے ہیں تو اس میں 70 فی صد اردو ہی ہے، 30 فی صد دوسری زبان کی آمیزش ہے تو سمجھ میں آ ہی جاتا ہے۔‘
صحرا میں کام کرنا کتنا دشوار تھا؟
’صحرامیں کام کرنا بہت خوبصورت ہے اگر گرمیوں میں نہ کر رہے ہوں تو۔ شام کے وقت گرمیوں میں بھی صحرا بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ زیادہ تر کام ہم نے سردیوں میں دن کے وقت کیا تھا۔
عورت کا ایک جنگ جو کردار دکھانے میں کیا مشکل پیش آئی؟
کاسٹنگ پہ منحصر ہوتا ہے، جنگجو کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں کہ کس قسم کی جنگجو ہے، زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔
یہ تینوں سوال پروفیشنلزم کا حصہ ہیں لیکن جو کام روٹین میں ہو رہا ہوتا ہے لوگ ایسے میں اس طرح کے کام سے اجتناب کرتے ہیں جس میں محنت ہوتی ہے صحرا، آؤٹ ڈور، ایک جنگجو لڑکی اور لہجہ بھی دوسرا۔
تینوں ہی ایک طرح کی چیزیں ہیں لیکن ناممکن نہیں ہیں، اور کرتے ہوئے کوئی بہت زیادہ مشکل نہیں آئی تھی۔ ہمارے اداکار اس طرح کے آؤٹ ڈور پروجیکٹ کرنے کے عادی نہیں ہوتے، ڈرامے کے خاص طور پہ پروڈیکشن ڈیزائن میں چونکہ اس طرح کام کیا نہیں جاتا اس لیے اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے، لیکن مجھے تو تینوں میں بہت مزا آیا۔