الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان پر پانچ سال کی پابندی عائد ہونے سے 2012 کے بعد وہ تیسرے سابق وزیراعظم بن گئے ہیں جو کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھ سکتے۔
ہفتے کو بدعنوانی کے ایک کیس میں عمران خان کو سزا سنائے جانے کے بعد یہ پابندی لگائی گئی ہے۔
قانون کے مطابق ایسی سزا کے باعث وہ فرد نااہل ہو جاتا ہے اور نااہلیت کی مدت الیکشن کمیشن طے کرتا ہے۔
1947 کے بعد پاکستان میں بعد اب تک کسی بھی منتخب وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ پاکستان میں ماضی کے رہنماؤں کو درپیش پابندیوں اور مسائل کے بارے میں کچھ حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔
سال 2012 میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی سزا کے طور پر عہدے سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد انہیں پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔
یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے سے انکار کر دیا تھا۔
یوسف رضا گیلانی 2013 کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تاہم 2018 میں کامیابی کے ساتھ الیکشن شامل ہوئے۔
سپریم کورٹ نے 2018 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو آمدن کا ذریعہ ظاہر نہ کرنے پر الیکشن لڑنے سے تاحیات روک دیا تھا لیکن وہ اپنی پارٹی پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں جو اس وقت برسراقتدار ہے اور ان کے چھوٹے بھائی شہبازشریف وزیراعظم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
18 مختلف مواقع پر وزرائے اعظم کو ان وجوہات کی بنا پر ہٹایا جا چکا ہے جن میں بدعنوانی کے الزامات، براہ راست فوجی بغاوت اور حکمراں گروپوں میں اندرونی لڑائی کے باعث جبری استعفے شامل ہیں۔ ایک پاکستانی وزیراعظم قتل بھی چکے ہیں۔
عمران خان اقتدار سے ہٹائے گئے وزرائے اعظم کی فہرست میں اس وقت شامل ہوئے جب 2022 میں ان کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔
منگل کو آنے والے فیصلے کے تحت عمران خان آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ آئندہ انتخابات نومبر میں متوقع ہیں، لیکن چند ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں وزیر اعظم بننے کے لیے کسی بھی فرد پر عمر کی کوئی حد نہیں ہے۔
اگر عدالت اس پابندی کو کالعدم قرار نہیں دیتی تو دوبارہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہونے تک عمران خان 75 سال کے ہو جائیں گے۔
حالیہ برسوں میں کئی دیگر اہم سیاسی رہنماؤں پر بھی پابندیاں لگ چکی ہیں۔ ان میں عمران خان کے سابق قریبی ساتھی لیکن اب حریف جہانگیر ترین بھی شامل ہیں جن پر تاحیات پابندی عائد کی گئی تھی۔
نوازشریف کابینہ کے دو سابق وزرا بھی پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیے گئے تھے۔
پاکستان میں 1950 کی دہائی میں بھی ایک قانون کے تحت کئی سیاسی رہنماؤں کو نااہل کیا تھا۔