یوکرین کی موسم بہار کی جوابی کارروائی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہو لیکن ان چھ مہینوں کا بہترین حصہ جس کا یوکرین کے اندر اور باہر بھرپور اندازہ لگایا گیا، وہ اقدام تھا جس سے اس جنگ کا تعین ہو سکے گا اور جیسا کہ کئیوں کو امید بھی ہے کہ روسی فوج اپنا بوریا بستر سمیٹ رہی ہے۔
اب جب کہ موسم گرما شروع ہو کر خزاں میں بدلنے والا ہے اس جوابی کارروائی کے بارے میں سوالات سر اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ ختم ہو چکی۔ کیا بالکل ایسا ہی ہوا؟ اگر ایسا ہی ہے تو پلان کیا تھا؟ اور کیا اگلے سال موسم بہار کی کارروائی کے دوران بھی اسی طرح کے مذاکرات ساتھ ساتھ چلیں گے؟
ان سوالات کے جواب آسان نہیں کیوں کہ دونوں جانب سے معلومات کا فقدان ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ یوکرین مستقبل کی فوجی نقل و حرکت کو پوشیدہ رکھ رہا ہے اور جنگ میں اموات کی تعداد کو سٹیٹ سیکریٹ کی طرح چھپا رہا ہے۔
روس سے آنے والی رپورٹس کو مغرب بلاک کر رہا ہے یا ان پر کسی کو یقین نہیں۔ جنگ کی فرنٹ لائن پر صحافیوں کی رسائی خطرناک ہے یا یوکرین کے میڈیا مینیجر اب اسے زیادہ کنٹرول کر رہے ہیں۔
ایسے میں وثوق سے صرف دو ہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس جنگ میں یوکرین کی جانب سے جوابی کارروائی کی گئی ہے، یہ دیر سے شروع ہوئی اور اس رفتار بھی توقع کے برخلاف سست تھی۔
ہم یہ اس لیے جانتے ہیں کیوں کہ صدر زیلنسکی خود متعدد بار ایسا بتا چکے ہیں اور اس قومی جنگ کے رہنما اپنی کامیابیوں کے ڈنکے بجاتے رہے ہیں۔
دوسرا یہ کہ اب تک یہ جوابی کارروائی یوکرین کو جانی اور مالی نقصان کے حوالے سے مہنگی پڑی ہے۔
مغربی ممالک کے صحافیوں نے جنگ کی فرنٹ لائن پر ہولناک مناظر دیکھے ہیں اور محاذ جنگ سے لوٹنے والے سپاہیوں سے دردناک کہانیاں سنیں۔ یہ جنگ کی وہ تصویر ہے جو روسی پروپیگنڈا کی محتاج نہیں۔
اس غیر یقینی صورت حال کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والے کل میں کیا ہونے والا ہے۔ یہ کہنے سے یوکرین کے ساتھ وفاداری پر کوئی فرق نہیں پڑتا جب مبصرین کی جانب سے اس جوابی کارروائی کو ناکام قرار دیا گیا۔
اس جنگ سے کئی سرپرائزز بھی سامنے آئے ہیں، بہت سوں کے لیے یوکرین کی ہمت اور ذہانت کے باوجود کوئی بھی واضح بیان پُر خطر ہو سکتا ہے۔
ایک شام آپ یوکرین کی جوابی کارروائی کی ناکامی کا سوگ مناتے ہیں لیکن اگلی صبح یوکرین کی افواج کی جانب سے روسی فوج کی صفوں کو روند ڈالنے، کیرچ پل کو منقطع کرنے اور ڈنیپر کے مشرقی کنارے پر واقع سٹریٹجک پوائنٹس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔
یہاں تک کہ ایک اہم یوکرینی پیش رفت کا وقت ختم ہوتا دکھائی دینے کے باوجود بھی امید برقرار ہے۔
یوکرین کی جوابی کارروائی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ پہلے اس کا خاکہ کیسے بنایا گیا تھا۔ اور یہاں ایسا لگتا ہے کہ صدر زیلنسکی اور ان کے جرنیلوں کی اصل منصوبہ بندی اور واشنگٹن اور دیگر مغربی درالحکومتوں کو، جان بوجھ کر یا بذصورت دیگر، دلائی گئی توقعات کے درمیان کم از کم کچھ فرق ضرور تھا۔
صحیح یا غلط لیکن کم از کم یوکرین کے باہر وسیع پیمانے پر یہ تاثر پیدا ہوا کہ برف پگھلنے کے بعد موسم بہار میں جوابی کارروائی شروع ہو جائے گی تاکہ بھاری سامان کی نقل و حرکت ممکن بنائی جا سکے۔
اور یہ کہ کارروائی مشرق میں فرنٹ لائن کے زیادہ تر حصے تک پھیلے گی اور اس کا مقصد دریائے ڈینیپر کو عبور کرنا، کرائمیا کے لیے زمینی راہداری کو توڑنا ہوگا جسے روس نے ماریوپول کی جنگ کے بعد بنایا تھا اور اگر کرائمیا نہیں تو بھی جنوب مشرقی یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کو واپس لینا ہے۔
اگر یہ مقصد تھا تو ایسا لگتا ہے کہ یہ غیر حقیقت پسندانہ تھا اور اسے قسمت کا موڑ کہیں کہ یہ جوابی کارروائی ناکام ہوگئی لیکن کیا یہ مقصد ایک بہترین صورت حال سے زیادہ کچھ اور تھا؟ کیئف نے اپنے مغربی حامیوں کو ملوث رکھنے اور فوجی سپلائی کو تیز کرنے کے مقصد سے اپنے منصوبے کے حجم اور فوری ہونے کے بارے میں جان بوجھ کر کہاں تک بات کی ہوگی؟
یوکرین کے حکام نے یقینی طور پر اپنی جوابی کارروائی کے آغاز میں واضح تاخیر کو فوجی سازوسامان کی سست ترسیل سے جوڑا ہے۔ یو ایس ابرامز اور جرمن لیپرڈ ٹینک کی فراہمی بھی ایک ایسا مسئلہ تھا جسے بڑے پیمانے پر نشر کیا گیا۔ فضائی طاقت کے لیے پائلٹس اور دیکھ بھال کے عملے کو تربیت دینے کے لیے درکار وقت کے پیش نظر ایف 16 لڑاکا طیاروں کے لیے یوکرین کی درخواستیں غیر حقیقی تھیں اور اس کے بجائے سوویت دور کے اضافی مگ طیاروں کا وعدہ کیا گیا تھا۔
لیکن روسی صفوں کی طرف پیش قدمی کرنے والے یوکرینی فوجیوں کے لیے فضائی تحفظ کی کمی کو وسیع پیمانے پر ایسی کمزوری کے طور پر لیا گیا ہے جس کی وجہ سے یوکرینی فوج کی پیش قدمی محدود ہو کر رہ گئی ہے اور فوجیوں کی اموات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مغربی فوجی حکام اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کیئف کے پاس روسی فوجوں کو نکالنے کے لیے نہ تو تربیت ہے اور نہ ہی ہتھیار لیکن وہ اس کی کمی پوری کے لیے ’یوکرینی حوصلے اور وسائل‘ پر انحصار کر رہا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک دن یوکرین اپنے لوگوں کی اموات کا الزام اتحادیوں کی لاپروائی کو دے دے؟
اس میں روسی سمت بھی ہے۔ اگر یوکرین کا منصوبہ متعدد محاذوں پر جوابی حملے اور روسی صفیں تیزی سے توڑنے کا تھا، تو اسے عملی شکل دینے میں اب تک یوکرین کی ناکامی اس کی اپنی کمزوری کی کس حد تک عکاسی کر سکتی ہے اور روس کی طاقت کو کس حد تک نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ منصوبہ بندی کے تحت جوابی حملے کے بارے میں کافی انتباہ کے پیش نظر روس نے خندقوں اور بارودی سرنگوں سمیت دفاع کی بہت سی لائنیں قائم کیں جو یوکرین کی تیاری سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوئیں۔
یہ کہنا غلط ہوگا کہ یوکرین نے کوئی پیش قدمی نہیں کی لیکن کوئی بھی فائدہ نسبتاً کم اور وقفے وقفے سے ہوا۔ کیئف کی فوجیں مشرقی علاقہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ضروری دریا کو عبور کرنے کا انتظام کرنے میں نام رہیں۔
حالیہ دنوں میں یوکرین کے زیر انتظام شہر خیرسون کے قریب سے نصف درجن چھوٹی کشتیوں کے مشرقی حصے میں داخل ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں لیکن اس بارے میں متضاد بیانات ہیں کہ آیا یوکرینی فوجی نے وہاں اپنا ٹھکانہ بنانے میں کامیاب رہے یا جیسا کہ روسی حکام نے کہا کہ انہیں مار بھگایا گیا۔ کچھ بھی ہو دریا پار کرنے کا عمل بڑی پیش قدمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
نظر انداز کر دیے جانے کے قابل اس پیش رفت کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ یوکرین نے زمین پر اپنے انتہائی جارحانہ جوابی حملے سے ہٹ کر دوسرے طریقوں سے جوابی حملے کا ارادہ کر لیا ہے جن کا مقصد روس کو داخلی سطح پر پریشان اور غیر مستحکم کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کارروائی میں گولہ بارود کے ذخیروں، اسلحے کی فیکٹریوں اور دیگر اہداف پر حملے، ماسکو اور روسی بحیرہ اسود کی بندرگاہوں تک ڈرون حملے اور روسی سرزمین کو کرائمیا سے جوڑنے والے کرچ پل پر حملے کے لیے پروازیں شامل ہیں۔
یوکرین کا اندازہ یہ لگتا ہے کہ روس عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ماسکو سوال کرے گا کہ کیا علاقائی فوائد ایسے ہیں کہ ان کے لیے نقصانات برداشت کیے جائیں۔ لیکن اس طرح کی تبدیلی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ روس، کیئف اور یوکرین کے زیادہ مغربی علاقوں کے خلاف زیادہ زور سے جوابی کارروائی کا فیصلہ کرسکتا ہے جو اب تک زیادہ تر محفوظ رہے ہیں۔ بندرگاہوں پر جوابی حملے دوطرفہ حملے لڑائی کے بحیرہ اسود کے پورے خطے میں پھیلنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی ناقابل فہم چیزیں ہیں۔ یوکرین کو کلسٹر بم فراہم کرنے کے امریکی فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسرے گولہ بارود کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے۔ موسم خزاں آ رہا ہے زیادہ بھیگے موسم کے ساتھ جس سے زمین پر یوکرین کی کارروائیوں میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔
صرف روسی حوصلے پرہی سوالیہ نشان نہیں لگ سکتا ہے بلکہ جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے چوں کہ اموات کی تعداد زیادہ ہو گی اس لیے نئی بھرتی مہمات کی ضرورت پیش آئے گی۔ یوکرین گذشتہ ماہ نیٹو سربراہ اجلاس میں رکنیت کا وعدہ لینے میں ناکام رہا جس کا زیلنسکی کو دکھ ہے۔
زیادہ غیر یقینی حالات بھی موجود ہیں۔ پولینڈ ، جو یوکرین کے لیے یورپی اور نیٹو کی حمایت میں سب سے آگے رہا ہے، میں اکتوبر میں عام انتخابات ہیں۔ امریکی صدارتی مہم زور پکڑنے لگی ہے اور یوکرین کے لیے برطانیہ کی حمایت بورس جانسن کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے نسبتاً کم غیر مشروط دکھائی دے رہی ہے۔
شائد بین الاقوامی موسم میں ممکنہ تبدیلی سے آگاہ یوکرین نے سفارتی مدد کے مزید مواقعے تلاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس عمل میں حال ہی میں سعودی عرب میں ہونے والا 40 سے زائد ممالک کا اجتماع بھی شامل ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ ان تمام حالات کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو یوکرین کے جوابی حملے کے بارے میں سوالات کا اس سے بہتر جواب مل سکتا ہے کہ میدان جنگ میں کیا ہو رہا ہے یا کیا نہیں ہو رہا۔ اگرچہ یوکرین کو ابھی تک وہ معجزاتی کامیابی حاصل کرنی ہے جس کی اسے کبھی امید تھی۔ یعنی روس کا کرائمیا تک جانے والا راستہ بند کرنے سے ہو سکتا ہے کہ اب فتح نہ مل سکے۔ وقت آگے بڑھ چکا ہے۔
© The Independent