شمالی سندھ کے شکارپور ضلع میں کچے کے علاقے سے چار دن پہلے اپنے چار ساتھیوں سمیت اغوا ہونے والے مقبول سندھی گلوکار نبی بخش چانڈیو عرف جگر جلال جمعے کے رات بازیاب ہوگئے۔ بازیاب ہونے والوں میں جگر جلال کے ساتھ ان کے بیٹے آفتاب، بھتیجے امیر علی، ہارمونیم نوازعبدالظیف تنیو اور ڈرائیور بہادر کھُاوڑ شامل ہیں۔
سندھی ٹی وی چینلز نے دعوی کیا کہ جگر جلال کی بازیابی پولیس اور قبائلی سرداروں کی جانب سے ان کو اغوا کرنے والے ڈاکوؤں سے کی گئی ایک ڈیل کے تحت ہوئی ہے۔ ڈی آئی جی لاڑکانہ عرفان بلوچ نے ان خبروں کے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرکے گلوکار اور ان کے ساتھیوں کو رہا کرایا۔ مگر ان کے دعوے کے برعکس ان افراد کے بازیابی کے ساتھ کوئی گرفتاری عمل میں نہ آسکی۔
پچھلے سال جب کوک اسٹوڈیو کے سیزن 11 کی آخری قسط میں معروف اداکار و پروڈیوسر آصف رضا میر کے بیٹے اور ’یقین کا سفر‘ سے شہرت حاصل کرنے والے اداکار احد رضا میر نے گلوکارہ مومنہ مستحسن کے ہمراہ 60 کی دہائی کا مقبول ترین گانا ’کو کو کورینا‘ گایا تو سوشل میڈیا پر انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
مگر جب وہی گانا جگر جلال نے ’آجکا ٹی وی‘ کے ’گوٹھ اسٹوڈیو‘ میں روایتی سندھی انداز میں گایا تو نہ صرف ان کا گایا ہوا گانا سوشل میڈیا پر وائرل ہوا بلکہ ان کی پذیرائی بھی ہوئی اور انہیں قومی سطح پر شہرت بھی ملی۔ اس گانے کی ویڈیو میں جگر جلال نے کہا کہ ’اگر احد اور مومنہ کوکو کورینا گا سکتے ہیں تو جگر جلال کیوں نہیں گا سکتا‘۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے آغوا کے بعد شکارپور ضلع کے ناپر کوٹ تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق گلوکار اور ان کے ساتھیوں کو بدنام ڈاکو سکھیو تیغانی اغوا کرکے خانپور تحصیل کے گڑہی تیغو والے علاقے میں دریائے سندھ کے کچے میں لے گیا تھا۔ گلوکار کی بازیابی کے لیے پولیس نے کچے میں آپریشن شروع کیا جس کے دوران ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ڈی ایس پی راؤ سفی اللہ ہلاک ہوگئے تھے جب کہ کئی پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔
گلوکار کے اغوا کے بعد ڈی آئی جی سکھر ڈاکٹر جمیل نے دعوی کیا تھا کہ جگر جلال کو ڈاکو سکھیو تیغانی نے محفل موسیقی کے لیے دعوت دی تھی اور جگر جلال کے دیر سے آنے اور خواتین ڈانسر نہ لانے پر ناراض ہوکر انھیں ساتھیوں سمیت یرغمال بنا لیا تھا۔
شمالی سندھ کے ضلع شکارپور میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں تواتر سے رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔ شمالی سندھ آٹھ اضلاع پر مشتمل ہے جن میں گھوٹکی، جیکب آباد، سکھر، شکارپور، لاڑکانہ، قمبر- شھدادکوٹ، خیرپور اور دادو اضلاع شامل ہیں۔ ان میں اکثریت اضلاع کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں جہاں کچے کا علاقہ ہے۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف مٹی کی موٹی دیواریں ہیں جوکہ دریا کا پانی باہر نکلنے سے روکتی ہیں ان دیواروں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں دس کلومیٹر ہے تو کہیں دو کلومیٹر۔
جون اور جولائی کے بعد جب مون سون بارشیں ہوتی ہیں تب دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھری ہوتی ہے مگرسردوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کے جیسے بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے۔ دریا کے دونوں اطراف کی دیواروں کے درمیان والے علاقے کو کچا کہا جاتا ہے۔ شمالی سندھ کے کچے کا علاقہ ڈاکوؤں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
ماضی میں شمالی سندھ کے ڈاکو نیشنل ہائی وی پر ناکہ لگا کر ایک ہی رات میں سینکڑوں مسافر بسوں کو لوٹ لیتے تھے۔ جس کے بعد اس علاقے میں رات کو سفر کرنا مشکل ہوتا تھا اور بعد میں پولیس موبائلووں کے ساتھ قافلہ بنا کر مسافر بسوں کو یہاں سے گزارا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکو بیوپاریوں اور ساہوکار لوگوں کو بھتے کی پرچی بھیجتے تھے، نہ دینے پر ان کو قتل کردیا جاتا تھا۔ وہ لوگ اغوا برائے تاوان کے ساتھ لوٹ مار میں ملوث تھے۔ ماضی میں شمالی سندھ کے امیر ترین سمجھے جانے والے ہندو ان ڈاکوؤں کے پسندیدہ شکار تھے جس کے باعث پچھلے کچھ سالوں میں شمالی سندھ سے ہندووں کے بڑی تعداد کراچی منتقل ہوگئی ہے۔
ان ڈاکوؤں کے خلاف سندھ پولیس نے کئی بار آپریشن کئے اور ڈاکوؤں سے مقابلے میں کئی پولیس افسران ہلاک بھی ہوئے۔ پولیس کی بلٹ پروف بکتربند گاڑیوں میں جانے والے پولیس افسران بھی بچ نہ سکے کیوں کہ، بقول شکارپور کے سیئنر صحافی وحید پھلپوٹو، ان ڈاکوؤں کے پاس ایسے جدید ہتھیار ہیں جن کے سامنے بلٹ پروف گاڑیاں بھی بیکار ہوجاتی ہیں۔ ’ماضی میں پولیس نے آپریشن کے بعد ان ڈاکوؤں کے قبضے سے اینٹی کرافٹ گن بھی برآمد کی تھی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنا کتنا مشکل ہے۔‘
آرمی پبلک سکول پشاور والے سانحے کے بعد پاکستان فوج نے شمالی پاکستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب کیا۔ اس کے بعد بھتہ خوری، ٹارگٹ کلینگ اور امن امان کی بگڑتی صورتحال کو کنٹرول کرنے لیے کراچی آپریشن کے ساتھ شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں بھی آپریشن شروع کیا۔ اس آپریشن کے دوران جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور کے کچے میں رہنے والا چھوٹو گینگ بھی گرفتار ہوا۔ اس آپریشن کے لیے پنجاب پولیس کے 1600 اہلکاروں نے حصہ لیا مگر اس کے باجود آپریشن ناکام رہا تھا، بعد میں پاکستان فوج کو اس آپریشن میں شامل کیا گیا اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے جس کے بعد گینگ کو پکڑا گیا۔
شمالی سندھ میں بھی ڈاکوؤں کے خلاف کئی آپریشن ہوئے، کئی گروہوں کا خاتمہ کیا گیا مگر اس کے باوجود شمالی سندھ میں ابھی تک ڈاکو راج قائم ہے۔
ماضی میں شکارپور ضلع کے ایس ایس پی رہنے والے سندھ پولیس کے افسر ناصر آفتاب پٹھان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کچے کے علاقے کی ساخت کی وجہ سے بھرپور آپریشن کرکے ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ’یہ کسی ایک ضلع کی پولیس کے آپریشن کرنے سے نہیں ہوسکتا۔ ان ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب پوری شمالی سندھ کی پولیس بشمول پنجاب پولیس کے ساتھ ایک بڑا آپریشن کیا جائے۔ کیوں کہ ہم نے جب بھی آپریشن کیا تو ڈاکوؤں کے گروہ دریا کے راستے دوسرے اضلاع میں بھاگ جاتے ہیں یا پھر پنجاب نکل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کو مستقل کچے میں نہیں رکھا جا سکتا کیوں کہ کچے میں اکثر پانی بھر جاتا ہے اور علاقے کی ساخت کی وجہ سے ہر آپریشن پر خطیر رقم لگتی ہے۔‘
اس کے ساتھ شمالی سندھ کے طاقتور ترین جاگیرداروں کا بھی ان ڈاکوؤں کو آشیرباد رہتا ہے۔ یہ جاگیردار اسمبلیوں بھی ہیں تو وہ پولیس کو ان کے خلاف آپریشن کرنے سے باز رکھتے ہیں۔ بقول صحافی اور محقق ضیا الرحمان، یہ طاقتور جاگیردار جو اپنے بلوچ نزاد قبائل کے سردار بھی ہیں، دوسرے قبائل کو ڈرانے اور الیکشن میں مخالفین کو دھمکانے کے لیے ان ڈاکوؤں سے مدد لیتے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ نے الزام عائد کیا کہ پی پی پی کے بہت سے رہنما شمالی سندھ کے ان ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتے ہیں اور ایسے پولیس افسر اپنے علاقوں میں رکھتے ہیں جو ان کے پالے ہوئے ڈاکوؤں کے خلاف کوئی آپریشن نہ کرسکیں۔ گلوگار جگر جلال تو بازیاب ہوگئے ہیں مگر اب بھی کئی لوگ ڈاکوؤں کے قبضے میں ہیں اور پولیس انہیں رہا کرانے میں ناکام رہی ہے۔